حج اکبر
اردو کے عظیم افسانہ نگار کی شاہکار تخلیق جس میں انسانی جذبوں کا عمدہ اظہار موجود ہے
منشی پریم چند
منشی صابر حسین کی آمدنی کم تھی اور خرچ زیادہ۔ اپنے بچے کے لیے دایہ (آیا) رکھنا گوارا نہیں کرسکتے تھے لیکن ایک تو بچے کی صحت کی فکر اور دوسرے اپنے برابر والوں سے کم تر بن کر رہنے کی ذلت اس خرچ کو برداشت کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ بچہ دایہ کو بہت چاہتا تھا ہر دم اس کے گلے کا ہار بنا رہتا ۔ اس وجہ سے دایہ اور بھی ضروری معلوم ہوتی تھی مگر شاید سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ وہ مروت کے باعث دایہ کو جواب دینے کی جرات نہ کرسکتے تھے ۔ بڑھیا ان کے یہاں تین سال سے نوکر تھی اس نے ان کے اکلوتے بچے کی پرورش کی تھی اپنا کام دل وجان سے کرتی تھی۔ اسے نکالنے کا کوئی حیلہ نہ تھا اور خواہ مخواہ کیڑے نکالنا صابر جیسے حلیم شخص کے لئے غیر ممکن تھا مگر شاکر ہ اس معاملہ میں اپنے شوہر سے متفق نہ تھی۔ اسے شک تھا کہ دایہ ہم کو لوٹے لیتی ہے۔ جب دایہ بازار سے لوٹتی تو وہ دہلیز میں چھپی رہتی کہ دیکھوں آٹا چھپا کر تو نہیں رکھ دیتی ۔لکڑی تو نہیں چھپا دیتی ۔ اس کی لائی ہوئی چیز کوگھنٹوں دیکھتی ۔ پچھتاتی ، بار بار پوچھتی اتنا ہی کیوں ؟ کیا بھاﺅ ہے ؟کیا اتنا مہنگا ہو گیا؟دایہ کبھی تو ان بدگمانیوں کا جواب ملائمت سے دیتی لیکن جب بیگم زیادہ تیز ہو جاتیں تو وہ بھی کڑوی پڑ جاتی تھی ۔ قسمیں کھاتی صفائی کی شہادتیں پیش کرتی ۔ تروید اور حجت میں گھنٹوں لگ جاتے قریب قریب روزانہ یہی کیفیت رہتی تھی اور روز ڈراما دایہ کی خفیف سی اشک ریزی کے بعد ختم ہو جاتا تھا ۔ دایہ کا اتنی سختیاں جھیل کر پڑے رہنا شاکرہ کے شکوک کی آب ریز کرتا تھا اسے کبھی یقین نہ آتا تھا کہ یہ بڑھیا محض بچے کی محبت سے پڑی ہوئی ہے، وہ دایہ کو ایسے لطیف جذبہ کا اہل نہیں سمجھتی تھی ۔
اتفاق سے ایک روز دایہ کو بازار سے لوٹنے میں ذرا دیر ہو گئی وہاں دو سبزی فروشوں میں بڑے جوش وخروش سے مناظرہ تھا ان کا مصور طرز ادا ان کا اشتعال انگیز استدلال ان کی متشکل تضحیک ان کی روشن شہادتیں اور منور روائتیں ان کی تعریض اور تردید سب بے مثال تھیں زہر کے دو دریا تھے یا دو شعلے جو دونوں طرف سے امنڈ کر باہر گتھ گئے تھے ۔ کیا روانی زبان تھی گویا کوزے میں دریا بھرا ہوا ۔ ان کا جوش اظہار ایک دوسرے کے بیانات کو سننے کی اجازت نہ دیتا تھا ۔ ان کے الفاظ کی ایسی رنگینی ، تخیل کی ایسی نوعیت، اسلوب کی ایسی جدت ، مضامین کی ایسی آمد، تشبیہات کی ایسی موزونیت اور فکر کی ایسی پرواز پر ایسا کون سا شاعر ہے جو رشک نہ کرتا ، صفت یہ تھی کہ اس مباحثہ میں تلخی یاد ل آزاری کا شائبہ بھی نہ تھا ۔ دونوں بلبلیں اپنے اپنے ترانوں میں محو تھیں ۔ ان کی متانت، ان کا ضبط ، ان کا اطمینان قلب حیرت انگیز تھا ، ان کے ظرف دل میں اس سے کہیں زیادہ کہنے کی اور بدرجہا زیادہ سننے کی گنجائش معلوم ہوتی تھی الغرض یہ خالص دماغی، ذہنی مناظرہ تھا ۔ اپنے اپنے کمالات کے اظہار کے لیے ایک خالص زور آزمائی تھی اپنے اپنے کرتب اور فن کے جوہر دکھانے کے لیے ۔
تماشائیوں کا ہجوم تھا وہ کنایات واشارے جن پر بے شرمی کو شرم آتی وہ کلمات رکیک جن سے عفونت بھی دور بھاگتی ۔ ہزاروں رنگین مزاجوں کے لئے محض باعث تفریح تھے ۔
دایہ بھی کھڑی ہو گئی کہ دیکھوں کیا ماجرا ہے پر تماشا اتنا دلآویز تھا کہ اسے وقت کا مطلق احساس نہ ہوا یکایک نو بجنے کی آواز کان میں آئی تو سحر ٹوٹا تو وہ بھاگتی ہوئی گھر کو چلی ۔
شاکرہ بھری بیٹھی تھی ۔ دایہ کو دیکھتے ہی تیور بدل کر بولی کیا بازار میں کھو گئی تھیں؟دایہ نے خطا وارانہ انداز سے سر جھکا لیا اور بولی ”بی بی ایک جان پہچان کی ماما سے ملاقات ہو گئی اور باتیں کرنے لگی۔“
شاکرہ جواب سے اور بھی برہم ہوئی یہاں دفتر جانے کو دیر ہو رہی ہے تمہیں سیر سپاٹے کی سوجھی ہے مگر دایہ نے اس وقت دبنے میں خیریت سمجھی بچہ کو گود میں لینے چلی ، پر شاکرہ نے جھڑک کر کہا ”رہنے دو تمہارے بغیر بے حال نہیں ہوا جاتا ۔ “
دایہ نے اس حکم کی تعمیل ضروری نہ سمجھی بیگم صاحب کا غصہ فروکر کرنے کی اس سے زیادہ کارگر کوئی تدبیر ذہن میں نہ آئی اس نے نصیر کو اشارے سے اپنی طرف بلایا وہ دونوں ہاتھ پھیلائے لڑکھڑاتا ہوا اس کی طرف چلا ۔ دایہ نے اسے گود میں اٹھالیا اور دروازہ کی طرف چلی لیکن شاکرہ بازکی طرح جھپٹی اور نصیر کو اس کی گود سے چھین کر بولی ”تمہارا یہ مکر بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں یہ تماشے کسی اور کو دِکھا، یہاں طبیعت سیر ہو گئی ۔ “
دایہ نصیر پر جان دیتی تھی اور سمجھتی تھی کہ شاکرہ اس سے بے خبر نہیں ہے اس کی سمجھ میں شاکرہ اور اس کے درمیان یہ ایسا مضبوط تعلق تھا جسے معمولی ترشیاں کمزور نہ کرسکتی تھیں ۔ اسی وجہ سے باوجود شاکرہ کی سخت زبانیوں کے اسے یقین نہ آتا تھا کہ وہ واقعی مجھے نکالنے پر آمادہ ہے ۔ پر شاکرہ نے یہ باتیں کچھ اس بے رخی سے کیں اور بالخصوص نصیر کو اس بے دردی سے چھین لیا کہ دایہ سے ضبط نہ ہوا ۔ بولی بی بی مجھ سے کوئی ایسی بڑی خطا تو نہیں ہوئی ۔ بہت ہو گا پاﺅ گھنٹہ کی دیر ہوئی ہوگی ۔ اس پر آپ اتنا جھلا رہی ہیں صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ دوسرا دروازہ دیکھو۔ اللہ نے پیدا کیا ہے تو رزق بھی دے گا ۔ مزدوی کا کال تھوڑا ہی ہے ۔ شاکرہ بولی تو یہاں تمہاری کون پروا کرتا ہے تمہاری جیسی مامائیں گلی گلی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہیں ۔
دایہ: ہاں خدا آپ کو سلامت رکھے مامائیں دائیاں بہت ملیں گی جو کچھ خطا ہوئی ہو معاف کیجئے گا میں جاتی ہوں ۔
شاکرہ: جاکر مردانے میں اپنی تنخواہ کا حساب کرلو ۔
دایہ :میری طرف سے نصیر میاں کو اس کی مٹھائیاں منگوا دیجئے گا ۔ اتنے میں صابر حسین بھی باہر سے آگئے پوچھا کیا ہے ؟
دایہ: ”کچھ نہیں بی بی نے جواب دے دیا ہے گھر جاتی ہوں “۔
صابر حسین خانگی معاملات سے یوں بچتے تھے جیسے کوئی برہنہ پا کانٹوں سے بچے انہیں سارے دن ایک ہی جگہ کھڑے رہنا منظور تھا پر کانٹوں میں پیر رکھنے کی جرات نہ تھی ۔ چیں بہ جبیں ہوکر بولے ”بات کیا ہوئی ؟“
صابر :تمہیں بیٹھے بٹھائے ایک نہ ایک کھچڑ سوجھتی رہتی ہے ۔
شاکرہ :ہاں مجھے تو اس بات کا جنون ہے۔ کیا کروں خصلت ہی ایسی ہے تمہیں یہ بہت پیاری ہے تو لے جاکر گلے باندھو !میرے یہاں ضرورت نہیں ۔
دایہ گھر سے نکلی تو اس کی آنکھیں لبریز تھیں۔ دل نصیر کے لیے تڑپ رہا تھا کہ ایک بار بچے کو گود میں لے کر پیار کرلوں پر یہ حسرت لیے اسے گھر سے نکلنا پڑا ۔
نصیر دایہ کے پیچھے پیچھے دروازے تک آیا لیکن جب دایہ نے دروازہ باہر سے بند کردیا تو مچل کر زمین پر لیٹ گیا اور انا انا کہہ کر رونے لگا۔ شاکرہ نے چمکارا پیار کیا، گود میں لینے کی کوشش کی مٹھائی کا لالچ دیا، میلہ دکھانے کا وعدہ کیا۔ اس سے کام نہ چلا تو بندر اور سپاہی اور لولو اور ہَوُّا کی دھمکی دی مگر نصیر پر مطلق اثر نہ ہوا یہاں تک کہ شاکرہ کو غصہ آگیا اس نے بچے کو وہیں چھوڑا اور آکر گھر کے دھندوں میں مصروف ہو گئی نصیر کا منہ اور گال لال ہو گئے آنکھیں سوج گئیں آخر وہ وہیں زمین پر سسکتے سسکتے سو گیا ۔
شاکرہ نے سمجھا تھا تھوڑی دیر میں بچہ رو دھو کر چپ ہو جائے گا پر نصیر نے جاگتے ہی پھر انا کی رٹ لگائی۔ تین بجے صابر حسین د فتر سے آئے اور بچے کی یہ حالت دیکھی تو بیوی کی طرف قہر کی نگاہوں سے دیکھ کر اسے گود میں اٹھالیا اور بہلانے لگے آخر نصیر کو جب یقین ہو گیا کہ دایہ مٹھائی لینے گئی ہے تو اسے تسکین ہوئی مگر شام ہوتے ہی اس نے پھر چیخنا شروع کیا انا مٹھائی لائی ؟
اس طرح دو تین دن گزر گئے نصیر کو انا کی رٹ لگانے اور رونے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا وہ بے ضرر کتا جو ایک لمحہ کے لئے اس کی گود سے جدا نہ ہوا تھا وہ بے زبان بلی جسے طاق پر بیٹھے دیکھ کر وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا ۔ وہ طائر بے پرواز جس پر وہ جان دیتا تھا سب اس کی نظروں سے گر گئے ۔ وہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا ۔ انا جیسی جیتی جاگتی پیار کرنے والی ، گود میں لے کر گھمانے والی ، تھپک تھپک کر سلانے والی گا گا کر خوش کرنے والی چیز کی جگہ ان بے جان، بے زبان چیزوں سے پر نہ ہوسکتی تھی ۔ وہ اکثر سوتے سوتے چونک پڑتا ۔ اور انا انا پکارکر رونے لگتا ۔ کبھی دروازہ پر جاتا اور انا انا پکار کر ہاتھوں سے اشارہ کرتا گویا اسے بلا رہا ہے۔ انا کی خالی کوٹھڑی میں جاکر گھنٹوں بیٹھا رہتا۔ اسے امید ہوتی تھی کہ انا یہاں آتی ہوگی۔ اس کوٹھڑی کا دروازہ بند پاتا تو جاکر کواڑ کھنکھناتا کہ شاید انا اندر چھپی بیٹھی ہو ۔ صدرد روازہ کھلتے سنتا تو انا انا کہہ کر دوڑتا ۔ سمجھتا کہ انا آگئی ۔ اس کا گدرایا ہوا بدن گھل گیا ۔ گلاب کے سے رخسار سوکھ گئے۔ ماں اور باپ دونو ں اس کی موہنی ہنسی کے لئے ترس ترس کر رہ جاتے ۔ اگر بہت گدگدانے اور چھیڑنے سے ہنستا بھی تو ایسا معلوم ہوتا دل سے نہیں محض دل رکھنے کے لئے ہنس رہا ہے ۔ اسے اب دودھ سے رغبت تھی نہ مصری سے ۔ نہ میوہ سے نہ میٹھے بسکٹ سے ۔ نہ تازی امرتیوں سے ان سب میں مزہ تب ہی تھا۔ جب انا اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھی۔ اب ان میں مزہ نہ تھا دو سال کا ہونہار لہلہاتا شاداب پودا مرجھا کر رہ گیا۔وہ لڑکا جسے گود میں اٹھاتے ہی نرمی گرمی اور محبت کا احساس ہوتا تھا اب استخواں کا ایک پتلا رہ گیا تھا ۔ شاکرہ بچہ کی یہ حالت دیکھ دیکھ کر اندرہی اندر پچھتاتی ۔ صابر حسین جو فطرتاً خلوت پسند آدمی تھے ۔ اب نصیر کو گود سے جدا نہ کرتے تھے ۔ اسے روز ہوا کھلانے جاتے۔ نت نئے کھلونے لائے ۔ پر مرجھایا ہوا پودا کسی طرح نہ پنپتا تھا۔ دایہ اس کی دنیا کا آفتاب تھی۔ اس قدرتی حرارت اور روشنی سے محروم ہوکر سبزی کی بہار کیونکر کھاتا ؟دایہ کے بغیر اسے چاروں طرف اندھیرا سناٹا نظر آتا تھا دوسری انا تیسرے ہی د ن رکھ لی تھی پر نصیر اس کی صورت دیکھتے ہی منہ چھپا لیتا تھا۔ گویا وہ کوئی دیونی یا بھتنی ہے ۔
عالم وجود میں دایہ کو نہ دیکھ کر نصیر اب زیادہ تر عالم خیال میں رہتا۔ وہاں اس کی اپنی انا چلتی پھرتی نظر آتی تھی ۔ اس کی وہی گود تھی ۔ وہی محبت، وہی پیاری باتیں، وہی پیارے پیارے گیت، وہی مزے دا رمٹھائیاں ، وہی سہانا سنسا روہی دل کش لیل ونہارا کیلے بیٹھے انا سے باتیں کرتا ۔ انا کتا بھونکا، انا گائے دودھ دیتی ہے ۔ انا اجلا گھوڑا دوڑا۔ سویرا ہوتے ہی لوٹا لے کر دایہ کی کوٹھڑی میں جاتا ، اور کہتا ”انا پانی پی “ دودھ کا گلاس لے کر اس کی کوٹھڑی میں رکھ آتا اور کہتا ”انا دودھ پلا “ اپنی چار پائی پر تکیہ رکھ کر چادر سے ڈھانک دیتا اور کہتا ”انا سوتی “ شاکرہ کھانا کھانے بیٹھتی تو رکابیاں اٹھا اٹھا انا کی کوٹھڑی میں لے جاتا اور کہتا ”انا کھانا کھائے گی “ انا اس کے لیے اب ایک آسمانی وجود تھی جس کی واپسی کی اسے مطلق امید نہ تھی ۔ وہ محض گزشتہ خوشیوں کی دل کش یاد گار تھی ۔ جس کی یاد ہی اس کا سب کچھ تھی ۔ نصیر کے انداز میں رفتہ رفتہ طفلانہ شوخی اور بے تابی کی جگہ ایک حسرت ناک توکل ایک مایوسانہ خوشی نظر آنے لگی ۔ اس طرح تین ہفتے گزر گئے ۔ برسات کا موسم تھاکبھی شدت کی گرمی کبھی ہوا کے ٹھنڈے جھونکے ۔ بخار اور زکام کا زور تھا نصیر کی نجافت ان موسمی تغیرات کو برداشت نہ کرسکی شاکرہ ، احتیاطاً اسے فلالین کا کرتا پہنائے رکھتی اسے پانی کے قریب نہ جانے دیتی ، ننگے پاﺅں ایک قدم نہ چلنے دیتی مگر رطوبت کا اثر ہو ہی گیا نصیر کھانسی اور بخار میں مبتلا ہو گیا ۔
صبح کا وقت تھا نصیر چارپائی پر آنکھیں بند کئے پڑا تھا ڈاکٹروں کا علاج بے سود ہو رہا تھا ۔ شاکرہ چار پائی پر بیٹھی اس کے سینہ پر تیل کی مالش کررہی رہی تھی اور صابر حسین صورت غم بنے ہوئے بچہ کو پردرد نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ۔ اس طرح وہ شاکرہ سے بہت کم بولتے تھے انہیں اس سے ایک نفرت سی ہوگئی تھی ۔ وہ نصیر کی اس بیماری کا سار الزام اسی کے سر رکھتے تھے ۔ وہ ان کی نگاہوں میں نہایت کم ظرف سفلہ مزاج بے حس عورت تھی ۔
شاکرہ نے ڈرتے ڈرتے کہا آج بڑے حکیم صاحب کو بلا لیتے شاید انہی کی دوا سے فائدہ ہو صابر حسین نے کالی گھٹاﺅں کی طرف دیکھ کر ترشی سے جواب دیا ”بڑے حکیم لقمان بھی آئیں تو اسے کوئی فا ئدہ نہ ہو گا ۔“
شاکرہ بولی ”تو کیا اب کسی کی دوا ہی نہ ہوگی ؟“
صابر :بس اس کی ایک ہی دوا ہے اور وہ نایاب ہے
شاکرہ: تمہیں تو وہی دھن سوار ہے، وہ کیا عباسی امرت پلا دے گی؟
صابر :ہاں وہ تمہارے لئے چاہے زہر ہو لیکن بچے کے لئے امرت ہی ہو گی۔
شاکرہ :میں نہیں سمجھتی کہ اللہ کی مرضی میں اسے اتنا دخل ہے ۔
صابر:اگر نہیں سمجھتی ہو اور اب تک نہیں سمجھا تو روﺅ گی ،بچے سے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔
شاکرہ :چپ بھی رہو کیسا شگون زبان سے نکالتے ہو اگر ایسی جلی کٹی سنانی ہیں تو یہاں سے چلے جاﺅ۔
صابر :ہاں تو میں جاتا ہوں مگر یاد رکھو یہ خون تمہاری گردن پر ہوگا اگر لڑکے کو پھر تندرست دیکھنا چاہتی ہو تو اس عباسی کے پاس جاﺅ اس کی منت کرو التجا کرو تمہارے بچے کی جان ان کے رحم پر منحصر ہے ۔
شاکرہ نے کچھ جواب نہ دیا اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ صابر حسین نے پوچھا کیا مرضی ہے جاﺅں اسے تلاش کروں؟
شاکرہ: تم کیوں جاﺅ گے میں خود چلی جاﺅں گی۔
صابر :نہیں معاف کرو مجھے تمہارے اوپر اعتبار نہیں ہے نہ جانے تمہارے منہ سے کیا نکل جائے کہ وہ آتی بھی ہو تو نہ آئے ۔
شاکرہ نے شوہر کی طرف نگاہ ملامت سے دیکھ کر کہا ”ہاں اور کیا مجھے اپنے بچے کی بیماری کا قلق تھوڑے ہی ہے میں نے شرم کے مارے تم سے کہا نہیں لیکن میرے دل میں با ربار یہ خیال پیدا ہوا ہے اگر مجھے دایہ کے مکان کا پتا معلوم ہوتا تو میں اسے کب کی منا لائی ہوتی ، وہ مجھ سے کتنی ہی ناراض ہو لیکن نصیر سے اسے محبت تھی میں آج ہی اس کے پاس جاﺅں گی اس کے قدموں کو آنسوﺅں سے تر کردوں گی اور وہ جس طرح راضی ہوگی اسے راضی کروں گی “۔
شاکرہ نے بہت ضبط کرکے یہ باتیں کہیں مگر امنڈے ہوئے آنسو اب نہ رک سکے ۔ صابر حسین نے بیوی کی طرف ہمدردانہ نگاہ سے دیکھا اور نادم ہوکر بولے میں تمہارا جانا مناسب نہیں سمجھتا ۔ میں خود ہی جاتا ہو ں۔
٭٭٭
آیاعباسی دنیا میں اکیلی تھی کسی زمانے میں اس کا خاندان گلاب کا سر سبز شاداب درخت تھا مگر رفتہ رفتہ خزاں نے سب پتیاں گرادیں بادِحوادث نے درخت کو پامال کردیا اور اب یہی ایک سوکھی ٹہنی ہرے بھرے درخت کی یادگار باقی تھی ۔ مگر نصیر کو پاکر اس کی سوکھی ٹہنی میں جان سی پڑ گئی تھی ۔ اس میں ہری ہری پتیاں نکل آئی تھیں ۔ وہ زندگی جو اب تک خشک اور پامال تھی اس میں پھر رنگ وبو کے آثار پیدا ہو گئے تھے ۔ اندھیرے بیابان میں بھٹکتے ہوئے مسافر کو شمع کی جھلک نظر آنے لگی تھی اس کا جوئے حیات سنگ ریزوں سے نہ ٹکراتا تھا وہ اب ایک گلزار کی آبیاری کرتا تھا اب اس کی زندگی مہمل نہیں تھی اس میں معنی پیدا ہو گئے تھے ۔ عباسی نصیر کی بھولی باتوں پر نثار ہو گئی مگر وہ اپنی محبت کو شاکرہ سے چھپاتی تھی اس لیے کہ ماں کے دل میں رشک نہ ہو وہ نصیر کے لیے ماں سے چھپ کر مٹھائیاں لاتی اور اسے کھلا کر خوش ہوتی۔ وہ دن میں دو دو تین تین بار اسے ابٹن ملتی کہ بچہ خوب پروان چڑھے ۔ وہ اسے دوسروں کے سامنے کوئی چیز نہ کھلاتی کہ بچے کو نظر نہ لگ جائے ۔ ہمیشہ دوسروں سے بچے کی کم خوری کا رونا رویا کرتی ۔ اسے نظر بد سے بچانے کے لئے تعویذ اور گنڈے لاتی رہتی یہ اس کی خالص مادرا نہ محبت تھی جس میں اپنے روحانی احتظاظ کے سوا اور کوئی غرض نہ تھی ۔
اس گھر سے نکل کر آج عباسی کی وہ حالت ہو گئی جو تھیٹر میں یکا یک بجلیوں کے گل ہو جانے سے ہوتی ہے اس کی آنکھوں کے سامنے وہی صورت ناچ رہی تھی کانوں میں وہی پیاری پیاری باتیں گونج رہی تھیں اسے اپنا گھر پھاڑے کھاتا تھا اس کال کوٹھڑی میں دم گھٹا جاتا تھا ۔
رات جوں توں کرکے کٹی صبح کو وہ مکان میں جھاڑو دے رہی تھی یکا یک تازے حلوے کی صدا سن کر بے اختیار باہر نکل آئی ،یاد آگیا آج حلوہ کون کھائے گا ؟آج گود میں بیٹھ کر کون چہکے گا ؟وہ نغمہ مسرت سننے کے لئے جو حلوا کھاتے وقت نصیر کی آنکھوں سے ، ہونٹوں سے اور جسم کے ایک ایک عضو سے برستا تھا عباسی کی روح تڑپ اٹھی وہ بے قراری کے عالم میں گھر سے نکلی کہ چلوں نصیر کو دیکھ آﺅں پر آدھے راستے سے لوٹ گئی ۔
نصیر عباسی کے دھیان سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہ اترتا تھا ۔وہ سوتے سوتے چونک پڑتی معلوم ہوتا نصیر ڈنڈے کا گھوڑا دبائے چلا آتا ہے ۔ پڑوسنوں کے پاس جاتی تو نصیر ہی کا چرچا کرتی اس کے گھر کوئی آتا تو نصیر ہی کا ذکر کرتی نصیر اس کے دل اور جان میں بسا ہوا تھا شاکرہ کی بے رخی اور بدسلوکی کے ملال کے لیے اس میں جگہ نہ تھی ۔
وہ روز ارادہ کرتی کہ آج نصیر کو دیکھنے جاﺅں گی اس کے لیے بازار سے کھلونے اور مٹھائیاں لاتی گھر سے چلتی لیکن کبھی آدھے راستے سے لوٹ آتی کبھی دو چار قدم سے آگے نہ بڑھا جاتا ۔ کون سا منہ لیکر جاﺅں؟ جو محبت کو فریب سمجھتا ہو اسے کون سا منہ دکھاﺅں کبھی سوچتی کہیں نصیر مجھے نہ پہچانے ،بچوں کی محبت کا اعتبا ر؟ نئی دایہ سے پرچ گیا ہو ، یہ خیال اس کے پیروں پر زنجیر کا کام کر جاتا تھا ۔
اس طرح دو ہفتے گزر گئے ، عباسی کا دل ہر دم اچاٹ رہتا ۔ جیسے اسے کوئی لمباسفر در پیش ہو ،گھر کی چیزیں جہاں کی تہاں پڑی رہتیں نہ کھانے کی فکر نہ کپڑے کی ،بدنی ضروریات بھی خلا دل کو پر کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ اتفاق سے اسی اثنا میں حج کے دن آگئے محلہ میں کچھ لوگ حج کی تیاریاں کرنے لگے عباسی کی حالت اس وقت پالتو چڑیا کی سی تھی جو قفس سے نکل کر پھر کسی گوشہ کی تلاش میں ہوا سے اپنے تئیں بھلا دینے کا یہ ایک بہانہ مل گیا آمادہ سفر ہو گئی ۔
آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں اور ہلکی ہلکی پھوار یں پڑ رہی تھیں ۔ دہلی اسٹیشن پر زائرین کا ہجوم تھا کچھ گاڑیوںمیں بیٹھے تھے کچھ اپنے گھر والوں سے رخصت ہو رہے تھے ۔ چاروں طرف ایک کہرام سا مچا ہوا تھا ۔ دنیا اس وقت بھی جانے والوں کے دامن پکڑے ہوئے تھی۔ کوئی بیوی سے تاکید کررہا تھا دھان کٹ جائے تو تالاب والے کھیت میں مٹربودینا اور باغ کے پاس گیہوں کوئی اپنے جوان لڑکے کو سمجھا رہا۔ ایک بوڑھے تاجر صاحب اپنے منیم سے کہہ رہے تھے ۔ مال آنے میں دیر ہو تو خود چلے جائیے گا اورمال لیجئے گا ورنہ روپیہ پھنس جائے گا مگر خال خال ایسی صورتیں بھی نظر آتی تھیں جن پر مذہبی ارادت کا جلوہ تھا ۔وہ یا تو خاموش آسمان کی طرف تاکتی تھیں یا محو تسبیح خوانی تھیں ۔ عباسی بھی ایک گاڑی میں بیٹھی سو چ رہی تھی ان بھلے آدمیوں کو اب بھی دنیا کی فکر نہیں چھوڑتی، وہی خریدوفروخت لین دین کے چرچے نصیر اس وقت یہاں ہوتا تو بہت روتا ۔ میری گود سے کسی طرح نہ اترتا ۔ لوٹ کر ضرور اسے دیکھنے جاﺅں گی یا اللہ کسی طرح گاڑی چلے گرمی کے مارے کلیجہ بھنا جاتا ہے۔ اتنی گھٹا امنڈی ہوئی ہے برسنے کا نام ہی نہیں لیتی معلوم نہیں یہ ریل والے کیوں دیر کررہے ہیں ؟جھوٹ موٹ ادھر ادھر دوڑے پھرتے ہیں یہ نہیں کہ چٹ پٹ گاڑی کھول دیں مسافروں کی جان میں جان آئے۔ یکا یک اس نے صابر حسین کو بائیسکل لئے پلیٹ فارم پر آتے دیکھا، ان کا چہرہ اترا ہوا تھا اور کپڑے تر تھے وہ گاڑیوں میں جھانکنے لگے عباسی محض یہ دکھانے کے لئے کہ میں بھی حج کرنے جارہی ہوں گاڑی سے باہر نکل آئی صابر حسین اسے دیکھتے ہی لپک کر قریب آئے اور بولے ”کیوں عباسی تم بھی حج کو چلیں ؟“
عباسی نے فخریہ انکسار سے کہا ”ہاں !یہاں کیا کروں ؛زندگی کا کوئی ٹھکانا معلوم نہیں کب آنکھیں بند ہو جائیں خدا کے یہاں منہ دکھانے کے لیے بھی تو کوئی سامان چاہیے نصیر میاں تو اچھی طرح ہیں؟“
صابر :اب تو تم جارہی ہو نصیر کا حال پوچھ کر کیا کرو گی اس کے لئے دعا کرتی رہنا، عباسی کا سینہ دھڑکنے لگے گھبرا کر بولی ”کیاان کی طبیعت اچھی نہیں ہے ؟“
صابر اس کی طبیعت تو اسی دن سے خراب ہے جس دن تم وہاں سے نکلیں کوئی دو ہفتہ تک تو شب وروز انا انا کی رٹ لگاتا رہا اور اب ایک ہفتہ سے کھانسی اور بخار میں مبتلا ہے۔ ساری دوائیں کرکے ہار گیا کوئی نفع ہی نہیں ہوتا میں نے ارادہ کیا تھا چل کر تمہاری منت سماجت کرکے لے چلوں کیا جانے تمہیں دیکھ کر اس کی طبیعت کچھ سنبھل جائے لیکن تمہارے گھر پر آیا تو معلوم ہوا کہ تم حج کرنے جارہی ہو۔ اب کس منہ سے چلنے کو کہوں ۔ تمہارے ساتھ سلوک ہی کون سا اچھا کیا تھا کہ اتنی جرات کرسکوں اور پھر کار ثواب میں رخنہ ڈالنے کا بھی خیال ہے۔ جاﺅ!اس کا خدا حافظ ہے حیات باقی ہے تو صحت ہو ہی جائے گی ۔ ورنہ مشیت ایزدی سے کیا چارہ ؟
عباسی کی آنکھوںکے سامنے اندھیرا چھا گیا سامنے کی چیزیں تیرتی ہوئی معلوم ہوئیں دل پر ایک عجیب وحشت کا غلبہ ہوا دل سے دعا نکلی ”اللہ میری جان کے صدقے میرے نصیر کا بال بیکا نہ ہو“۔رقت سے گلا بھر آیا میں کیسی سنگ دل ہوں پیارا بچہ رو رو کر ہلاک ہو گیا اور اسے دیکھنے تک نہ گئی شاکرہ بدمزاج سہی بدزبان سہی مگر نصیر نے میرا کیا بگاڑا تھا ؟میں نے ماں کا بدلہ نصیر سے لیا یا خدا میرا گناہ بخشیو !پیارا نصیر میرے لئے تڑپ رہا ہے (اس خیال سے عباسی کا کلیجہ مسوس اٹھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ) مجھے کیا معلوم تھا کہ اسے مجھ سے اتنی محبت ہے ورنہ شاکرہ کی جوتیاں کھاتی اور گھر سے قدم نہ نکالتی آہ !نہ معلوم بیچارے کی کیا حالت ہے ؟انداز وحشت بولی ”دودھ تو پیتے ہیں نا؟“
صابر: تم دودھ پینے کو کہتی ہو اس نے دو دن سے آنکھیں تو کھولیں نہیں
عباسی: یا میرے اللہ !ارے او قلی! قلی !بیٹا !!آکے میرا اسباب گاڑی سے اتار دے اب مجھے حج وج کی نہیں سوجھتی ہاں بیٹا !جلدی کر میاں دیکھیے کوئی یکہ ہو تو لے آئیے !
یکہ روانہ ہوا سامنے سڑک پر کئی بگھیاں کھڑی تھیں گھوڑا آہستہ آہستہ چل رہا تھا عباسی بار بار جھنجھلا تی تھی اور یکہ بان سے کہتی تھی بیٹا جلدی کر!میں تجھے کچھ زیادہ دے دوں گی راستے میں مسافروں کی بھیڑ دیکھ کر اسے غصہ آتا تھا اور اس کا جی چاہتا تھا گھوڑے کے پر لگ جاتے لیکن جب صابر حسین کا مکان قریب آگیا تو عباسی کا سینہ زور سے اچھلنے لگا بار بار دل سے دعا نکلنے گی خدا کرے سب خیروعافیت ہو ۔
یکہ صابر حسین کی گلی میں داخل ہوا دفعتاً عباسی کے کان میں کسی کے رونے کی آواز آئی اس کا کلیجہ منہ کو آگیا سر تیورا گیا معلوم ہوا دریا میں ڈوبی جاتی ہوں جی چاہا یکہ سے کود پڑوں مگر ذرا دیر میں معلوم ہوا کہ عورت میکہ سے بدا ہورہی ہے ۔ تسکین ہوئی ۔
آخر صابر حسین کا مکان آپہنچا عباسی نے ڈرتے ڈرتے دروازے کی طرف تاکا جیسے کوئی گھر سے بھاگا ہوا یتیم لڑکا شام کو بھوکا پیاسا گھر آئے اور دروازے کی طرف سہمی ہوئی نگاہ سے دیکھے کہ کوئی بیٹھا تو نہیں ہے ۔ دروازہ پر سناٹا چھایا ہوا تھا باورچی بیٹھا ہوا حقہ پی رہا تھا عباسی کو ذرا ڈھارس ہوئی گھرمیں داخل ہوئی تو دیکھا کہ نئی دایہ کچھ پکا رہی ہے کلیجہ مضبوط ہوا شاکرہ کے کمرے گئی تو اس کا دل گرما کی دوپہری دھوپ کی طرح کانپ رہا تھا شاکرہ نصیر کو گود میں لئے دروازے کی طرف ٹکٹکی لگائے تاک رہی تھی غم اور یاس کی زندہ تصویر بنی ہوئی تھی ۔
عباسی نے شاکرہ سے کچھ نہیں پوچھا نصیر کو اس کی گود سے لے لیا اور اس کے منہ کی طرف چشم پرنم سے دیکھ کر کہا ”بیٹا !نصیر آنکھیں کھولو“‘
نصیر نے آنکھیں کھولیں ایک لمحہ تک دایہ کو خاموش دیکھتا رہا تب یکایک دایہ کے گلے سے لپٹ گیا اور بولا ”انا آئی ، انا آئی “
نصیر کا زردمرجھایا ہوا چہرہ روشن ہوگیا جیسے بجھتے ہوئے چراغ میں تیل جائے، ایسا معلوم ہوا گویا وہ کچھ بڑھ گیا ہے ۔
ایک ہفتہ گزر گیا صبح کا وقت تھانصیر آنگن میں کھیل رہا تھاصابر حسین نے آکراسے گودمیں اٹھالیا اور پیار کرکے بولے ”تمہاری انا کو مار کربھگادیں ؟“
نصیر نے منہ بنا کر کہا ”نہیں وہ نہیں جائے گی “
عباسی بولی ”کیوںبیٹا !مجھے تو تونے کعبہ شریف نہ جانے دیا میرے حج کا ثواب کون دے گا ؟“
صابر حسین نے مسکر ا کر کہا ”تمہیں اس سے کہیں زیادہ ثواب ہوگیا اس حج کا نام حج اکبر ہے ۔ “
‰‡ œ‚Ž
Ž‹¢ œ¥ ˜—¤Ÿ š’ ¦ Ž œ¤ “¦œŽ „Šž¤› ‡’ Ÿ¤¡ ’ ¤ ‡‚¢¡ œ ˜Ÿ‹¦ —¦Ž Ÿ¢‡¢‹ ¦¥
Ÿ “¤ ƒŽ¤Ÿ ˆ ‹
Ÿ “¤ ”‚Ž ‰’¤ œ¤ ³Ÿ‹ ¤ œŸ „§¤ ¢Ž ŠŽˆ ¤‹¦ó ƒ ¥ ‚ˆ¥ œ¥ ž¤¥ ‹¤¦ â³¤á Žœ§ ¢Ž ¦¤¡ œŽ’œ„¥ „§¥ ž¤œ ¤œ „¢ ‚ˆ¥ œ¤ ”‰„ œ¤ šœŽ ¢Ž ‹¢’Ž¥ ƒ ¥ ‚Ž‚Ž ¢ž¢¡ ’¥ œŸ „Ž ‚ œŽ Ž¦ ¥ œ¤ ž„ ’ ŠŽˆ œ¢ ‚Ž‹“„ œŽ ¥ ƒŽ Ÿ‡‚¢Ž œŽ„¤ „§¤ó ‚ˆ¦ ‹¤¦ œ¢ ‚¦„ ˆ¦„ „§ ¦Ž ‹Ÿ ’ œ¥ ž¥ œ ¦Ž ‚ Ž¦„ ó ’ ¢‡¦ ’¥ ‹¤¦ ¢Ž ‚§¤ •Ž¢Ž¤ Ÿ˜ž¢Ÿ ¦¢„¤ „§¤ ŸŽ “¤‹ ’‚ ’¥ ‚ ’‚‚ ¤¦ „§ œ¦ ¢¦ ŸŽ¢„ œ¥ ‚˜† ‹¤¦ œ¢ ‡¢‚ ‹¤ ¥ œ¤ ‡Ž„ ¦ œŽ’œ„¥ „§¥ ó ‚§¤ œ¥ ¤¦¡ „¤ ’ž ’¥ ¢œŽ „§¤ ’ ¥ œ¥ œž¢„¥ ‚ˆ¥ œ¤ ƒŽ¢Ž“ œ¤ „§¤ ƒ œŸ ‹ž ¢‡ ’¥ œŽ„¤ „§¤ó ’¥ œž ¥ œ œ¢£¤ ‰¤ž¦ ¦ „§ ¢Ž Š¢¦ ŸŠ¢¦ œ¤¥ œž ”‚Ž ‡¤’¥ ‰ž¤Ÿ “Š” œ¥ ž£¥ ™¤Ž ŸŸœ „§ ŸŽ “œŽ ¦ ’ Ÿ˜Ÿž¦ Ÿ¤¡ ƒ ¥ “¢¦Ž ’¥ Ÿ„š› ¦ „§¤ó ’¥ “œ „§ œ¦ ‹¤¦ ¦Ÿ œ¢ ž¢…¥ ž¤„¤ ¦¥ó ‡‚ ‹¤¦ ‚Ž ’¥ ž¢…„¤ „¢ ¢¦ ‹¦ž¤ Ÿ¤¡ ˆ§ƒ¤ Ž¦„¤ œ¦ ‹¤œ§¢¡ ³… ˆ§ƒ œŽ „¢ ¦¤¡ Žœ§ ‹¤„¤ 󞜤 „¢ ¦¤¡ ˆ§ƒ ‹¤„¤ ó ’ œ¤ ž£¤ ¦¢£¤ ˆ¤ œ¢§ …¢¡ ‹¤œ§„¤ ó ƒˆ§„„¤ í ‚Ž ‚Ž ƒ¢ˆ§„¤ „ ¦¤ œ¤¢¡ î œ¤ ‚§£¢ ¦¥  „ Ÿ¦ ¦¢ ¤î‹¤¦ œ‚§¤ „¢ ‚‹Ÿ ¤¢¡ œ ‡¢‚ Ÿž£Ÿ„ ’¥ ‹¤„¤ ž¤œ ‡‚ ‚¤Ÿ ¤‹¦ „¤ ¦¢ ‡„¤¡ „¢ ¢¦ ‚§¤ œ¢¤ ƒ ‡„¤ „§¤ ó ›’Ÿ¤¡ œ§„¤ ”š£¤ œ¤ “¦‹„¤¡ ƒ¤“ œŽ„¤ ó „Ž¢¤‹ ¢Ž ‰‡„ Ÿ¤¡ § …¢¡ ž ‡„¥ ›Ž¤‚ ›Ž¤‚ Ž¢ ¦ ¤¦¤ œ¤š¤„ Ž¦„¤ „§¤ ¢Ž Ž¢ ŒŽŸ ‹¤¦ œ¤ Šš¤š ’¤ “œ Ž¤¤ œ¥ ‚˜‹ Š„Ÿ ¦¢ ‡„ „§ ó ‹¤¦ œ „ ¤ ’Š„¤¡ ‡§¤ž œŽ ƒ¥ Ž¦ “œŽ¦ œ¥ “œ¢œ œ¤ ³‚ Ž¤ œŽ„ „§ ’¥ œ‚§¤ ¤›¤ ¦ ³„ „§ œ¦ ¤¦ ‚§¤ Ÿ‰• ‚ˆ¥ œ¤ Ÿ‰‚„ ’¥ ƒ¤ ¦¢£¤ ¦¥í ¢¦ ‹¤¦ œ¢ ¤’¥ ž–¤š ‡‚¦ œ ¦ž ¦¤¡ ’Ÿ‡§„¤ „§¤ ó
„š› ’¥ ¤œ Ž¢ ‹¤¦ œ¢ ‚Ž ’¥ ž¢… ¥ Ÿ¤¡ Ž ‹¤Ž ¦¢ £¤ ¢¦¡ ‹¢ ’‚¤ šŽ¢“¢¡ Ÿ¤¡ ‚¥ ‡¢“ ¢ŠŽ¢“ ’¥ Ÿ —Ž¦ „§ œ Ÿ”¢Ž –Ž ‹ œ “„˜ž ¤ ’„‹žž œ¤ Ÿ„“œž „•‰¤œ œ¤ Ž¢“ “¦‹„¤¡ ¢Ž Ÿ ¢Ž Ž¢£„¤¡ œ¤ „˜Ž¤• ¢Ž „Ž‹¤‹ ’‚ ‚¥ Ÿ†ž „§¤¡ ¦Ž œ¥ ‹¢ ‹Ž¤ „§¥ ¤ ‹¢ “˜ž¥ ‡¢ ‹¢ ¢¡ –Žš ’¥ Ÿ Œ œŽ ‚¦Ž „§ £¥ „§¥ ó œ¤ Ž¢ ¤ ‚ „§¤ ¢¤ œ¢¥ Ÿ¤¡ ‹Ž¤ ‚§Ž ¦¢ ó œ ‡¢“ —¦Ž ¤œ ‹¢’Ž¥ œ¥ ‚¤ „ œ¢ ’ ¥ œ¤ ‡„ ¦ ‹¤„ „§ ó œ¥ žš— œ¤ ¤’¤ Ž ¤ ¤ í „Š¤ž œ¤ ¤’¤ ¢˜¤„í ’ž¢‚ œ¤ ¤’¤ ‡‹„ í Ÿ•Ÿ¤ œ¤ ¤’¤ ³Ÿ‹í „“‚¤¦„ œ¤ ¤’¤ Ÿ¢¢ ¤„ ¢Ž šœŽ œ¤ ¤’¤ ƒŽ¢ ƒŽ ¤’ œ¢ ’ “˜Ž ¦¥ ‡¢ Ž“œ ¦ œŽ„ í ”š„ ¤¦ „§¤ œ¦ ’ Ÿ‚‰†¦ Ÿ¤¡ „žŠ¤ ¤‹ ž ³Ž¤ œ “£‚¦ ‚§¤ ¦ „§ ó ‹¢ ¢¡ ‚ž‚ž¤¡ ƒ ¥ ƒ ¥ „Ž ¢¡ Ÿ¤¡ Ÿ‰¢ „§¤¡ ó œ¤ Ÿ„ „í œ •‚– í œ –Ÿ¤ ›ž‚ ‰¤Ž„ ¤ „§ í œ¥ —Žš ‹ž Ÿ¤¡ ’ ’¥ œ¦¤¡ ¤‹¦ œ¦ ¥ œ¤ ¢Ž ‚‹Ž‡¦ ¤‹¦ ’ ¥ œ¤ ‡£“ Ÿ˜ž¢Ÿ ¦¢„¤ „§¤ ž™Ž• ¤¦ Šž” ‹Ÿ™¤í ¦ ¤ Ÿ —Ž¦ „§ ó ƒ ¥ ƒ ¥ œŸž„ œ¥ —¦Ž œ¥ ž¤¥ ¤œ Šž” ¢Ž ³Ÿ£¤ „§¤ ƒ ¥ ƒ ¥ œŽ„‚ ¢Ž š œ¥ ‡¢¦Ž ‹œ§ ¥ œ¥ ž¤¥ ó
„Ÿ“£¤¢¡ œ ¦‡¢Ÿ „§ ¢¦ œ ¤„ ¢“Ž¥ ‡ ƒŽ ‚¥ “ŽŸ¤ œ¢ “ŽŸ ³„¤ ¢¦ œžŸ„ Žœ¤œ ‡ ’¥ ˜š¢ „ ‚§¤ ‹¢Ž ‚§„¤ ó ¦Ž¢¡ Ž ¤ Ÿ‡¢¡ œ¥ ž£¥ Ÿ‰• ‚˜† „šŽ¤‰ „§¥ ó
‹¤¦ ‚§¤ œ§¤ ¦¢ £¤ œ¦ ‹¤œ§¢¡ œ¤ Ÿ‡Ž ¦¥ ƒŽ „Ÿ“ „ ‹ž³¢¤ „§ œ¦ ’¥ ¢›„ œ Ÿ–ž› ‰’’ ¦ ¦¢ ¤œ¤œ ¢ ‚‡ ¥ œ¤ ³¢ œ Ÿ¤¡ ³£¤ „¢ ’‰Ž …¢… „¢ ¢¦ ‚§„¤ ¦¢£¤ §Ž œ¢ ˆž¤ ó
“œŽ¦ ‚§Ž¤ ‚¤…§¤ „§¤ ó ‹¤¦ œ¢ ‹¤œ§„¥ ¦¤ „¤¢Ž ‚‹ž œŽ ‚¢ž¤ œ¤ ‚Ž Ÿ¤¡ œ§¢ £¤ „§¤¡î‹¤¦ ¥ Š– ¢Ž ¦ ‹ ’¥ ’Ž ‡§œ ž¤ ¢Ž ‚¢ž¤ þþ‚¤ ‚¤ ¤œ ‡ ƒ¦ˆ œ¤ ŸŸ ’¥ Ÿž›„ ¦¢ £¤ ¢Ž ‚„¤¡ œŽ ¥ ž¤óýý
“œŽ¦ ‡¢‚ ’¥ ¢Ž ‚§¤ ‚Ž¦Ÿ ¦¢£¤ ¤¦¡ ‹š„Ž ‡ ¥ œ¢ ‹¤Ž ¦¢ Ž¦¤ ¦¥ „Ÿ¦¤¡ ’¤Ž ’ƒ…¥ œ¤ ’¢‡§¤ ¦¥ ŸŽ ‹¤¦ ¥ ’ ¢›„ ‹‚ ¥ Ÿ¤¡ Š¤Ž¤„ ’Ÿ‡§¤ ‚ˆ¦ œ¢ ¢‹ Ÿ¤¡ ž¤ ¥ ˆž¤ í ƒŽ “œŽ¦ ¥ ‡§œ œŽ œ¦ þþŽ¦ ¥ ‹¢ „Ÿ¦Ž¥ ‚™¤Ž ‚¥ ‰ž ¦¤¡ ¦¢ ‡„ ó ýý
‹¤¦ ¥ ’ ‰œŸ œ¤ „˜Ÿ¤ž •Ž¢Ž¤ ¦ ’Ÿ‡§¤ ‚¤Ÿ ”‰‚ œ ™”¦ šŽ¢œŽ œŽ ¥ œ¤ ’ ’¥ ¤‹¦ œŽŽ œ¢£¤ „‹‚¤Ž ¦ Ÿ¤¡ ¦ ³£¤ ’ ¥ ”¤Ž œ¢ “Ž¥ ’¥ ƒ ¤ –Žš ‚ž¤ ¢¦ ‹¢ ¢¡ ¦„§ ƒ§¤ž£¥ žœ§„ ¦¢ ’ œ¤ –Žš ˆž ó ‹¤¦ ¥ ’¥ ¢‹ Ÿ¤¡ …§ž¤ ¢Ž ‹Ž¢¦ œ¤ –Žš ˆž¤ ž¤œ “œŽ¦ ‚œ¤ –Ž‰ ‡§ƒ…¤ ¢Ž ”¤Ž œ¢ ’ œ¤ ¢‹ ’¥ ˆ§¤ œŽ ‚¢ž¤ þþ„Ÿ¦Ž ¤¦ ŸœŽ ‚¦„ ‹ ¢¡ ’¥ ‹¤œ§ Ž¦¤ ¦¢¡ ¤¦ „Ÿ“¥ œ’¤ ¢Ž œ¢ ‹ªœ§í ¤¦¡ –‚¤˜„ ’¤Ž ¦¢ £¤ ó ýý
‹¤¦ ”¤Ž ƒŽ ‡ ‹¤„¤ „§¤ ¢Ž ’Ÿ‡§„¤ „§¤ œ¦ “œŽ¦ ’ ’¥ ‚¥ Š‚Ž ¦¤¡ ¦¥ ’ œ¤ ’Ÿ‡§ Ÿ¤¡ “œŽ¦ ¢Ž ’ œ¥ ‹ŽŸ¤ ¤¦ ¤’ Ÿ•‚¢– „˜ž› „§ ‡’¥ Ÿ˜Ÿ¢ž¤ „Ž“¤¡ œŸ¢Ž ¦ œŽ’œ„¤ „§¤¡ ó ’¤ ¢‡¦ ’¥ ‚¢‡¢‹ “œŽ¦ œ¤ ’Š„ ‚ ¤¢¡ œ¥ ’¥ ¤›¤ ¦ ³„ „§ œ¦ ¢¦ ¢›˜¤ Ÿ‡§¥ œž ¥ ƒŽ ³Ÿ‹¦ ¦¥ ó ƒŽ “œŽ¦ ¥ ¤¦ ‚„¤¡ œˆ§ ’ ‚¥ ŽŠ¤ ’¥ œ¤¡ ¢Ž ‚žŠ”¢” ”¤Ž œ¢ ’ ‚¥ ‹Ž‹¤ ’¥ ˆ§¤ ž¤ œ¦ ‹¤¦ ’¥ •‚– ¦ ¦¢ ó ‚¢ž¤ ‚¤ ‚¤ Ÿ‡§ ’¥ œ¢£¤ ¤’¤ ‚¤ Š– „¢ ¦¤¡ ¦¢£¤ ó ‚¦„ ¦¢ ƒ£¢ § …¦ œ¤ ‹¤Ž ¦¢£¤ ¦¢¤ ó ’ ƒŽ ³ƒ „ ‡§ž Ž¦¤ ¦¤¡ ”š ”š œ¤¢¡ ¦¤¡ œ¦¦ ‹¤„¤¡ œ¦ ‹¢’Ž ‹Ž¢¦ ‹¤œ§¢ó žž¦ ¥ ƒ¤‹ œ¤ ¦¥ „¢ Ž› ‚§¤ ‹¥ ó Ÿ‹¢¤ œ œž „§¢ ¦¤ ¦¥ ó “œŽ¦ ‚¢ž¤ „¢ ¤¦¡ „Ÿ¦Ž¤ œ¢ ƒŽ¢ œŽ„ ¦¥ „Ÿ¦Ž¤ ‡¤’¤ ŸŸ£¤¡ ž¤ ž¤ …§¢œŽ¤¡ œ§„¤ ƒ§Ž„¤ ¦¤¡ ó
‹¤¦é ¦¡ Š‹ ³ƒ œ¢ ’žŸ„ Žœ§¥ ŸŸ£¤¡ ‹£¤¡ ‚¦„ Ÿž¤¡ ¤ ‡¢ œˆ§ Š– ¦¢£¤ ¦¢ Ÿ˜š œ¤‡£¥ Ÿ¤¡ ‡„¤ ¦¢¡ ó
“œŽ¦é ‡œŽ ŸŽ‹ ¥ Ÿ¤¡ ƒ ¤ „ Š¢¦ œ ‰’‚ œŽž¢ ó
‹¤¦ 韤Ž¤ –Žš ’¥ ”¤Ž Ÿ¤¡ œ¢ ’ œ¤ Ÿ…§£¤¡ Ÿ ¢ ‹¤‡£¥ ó „ ¥ Ÿ¤¡ ”‚Ž ‰’¤ ‚§¤ ‚¦Ž ’¥ ³£¥ ƒ¢ˆ§ œ¤ ¦¥ î
‹¤¦é þþœˆ§ ¦¤¡ ‚¤ ‚¤ ¥ ‡¢‚ ‹¥ ‹¤ ¦¥ §Ž ‡„¤ ¦¢¡ ýýó
”‚Ž ‰’¤ Š ¤ Ÿ˜Ÿž„ ’¥ ¤¢¡ ‚ˆ„¥ „§¥ ‡¤’¥ œ¢£¤ ‚Ž¦ ¦ ƒ œ …¢¡ ’¥ ‚ˆ¥ ¦¤¡ ’Ž¥ ‹ ¤œ ¦¤ ‡¦ œ§¥ Ž¦ Ÿ —¢Ž „§ ƒŽ œ …¢¡ Ÿ¤¡ ƒ¤Ž Žœ§ ¥ œ¤ ‡Ž„ ¦ „§¤ ó ˆ¤¡ ‚¦ ‡‚¤¡ ¦¢œŽ ‚¢ž¥ þþ‚„ œ¤ ¦¢£¤ îýý
”‚Ž é„Ÿ¦¤¡ ‚¤…§¥ ‚…§£¥ ¤œ ¦ ¤œ œ§ˆ ’¢‡§„¤ Ž¦„¤ ¦¥ ó
“œŽ¦ 馡 Ÿ‡§¥ „¢ ’ ‚„ œ ‡ ¢ ¦¥ó œ¤ œŽ¢¡ Š”ž„ ¦¤ ¤’¤ ¦¥ „Ÿ¦¤¡ ¤¦ ‚¦„ ƒ¤Ž¤ ¦¥ „¢ ž¥ ‡œŽ ž¥ ‚ ‹§¢ ÚŸ¤Ž¥ ¤¦¡ •Ž¢Ž„ ¦¤¡ ó
‹¤¦ §Ž ’¥ œž¤ „¢ ’ œ¤ ³ œ§¤¡ ž‚Ž¤ „§¤¡ó ‹ž ”¤Ž œ¥ ž¤¥ „ƒ Ž¦ „§ œ¦ ¤œ ‚Ž ‚ˆ¥ œ¢ ¢‹ Ÿ¤¡ ž¥ œŽ ƒ¤Ž œŽž¢¡ ƒŽ ¤¦ ‰’Ž„ ž¤¥ ’¥ §Ž ’¥ œž ƒ ó
”¤Ž ‹¤¦ œ¥ ƒ¤ˆ§¥ ƒ¤ˆ§¥ ‹Ž¢¥ „œ ³¤ ž¤œ ‡‚ ‹¤¦ ¥ ‹Ž¢¦ ‚¦Ž ’¥ ‚ ‹ œŽ‹¤ „¢ Ÿˆž œŽ Ÿ¤ ƒŽ ž¤… ¤ ¢Ž œ¦¦ œŽ Ž¢ ¥ žó “œŽ¦ ¥ ˆŸœŽ ƒ¤Ž œ¤í ¢‹ Ÿ¤¡ ž¤ ¥ œ¤ œ¢““ œ¤ Ÿ…§£¤ œ žžˆ ‹¤í Ÿ¤ž¦ ‹œ§ ¥ œ ¢˜‹¦ œ¤ó ’ ’¥ œŸ ¦ ˆž „¢ ‚ ‹Ž ¢Ž ’ƒ¦¤ ¢Ž ž¢ž¢ ¢Ž ¦«¢¬ œ¤ ‹§Ÿœ¤ ‹¤ ŸŽ ”¤Ž ƒŽ Ÿ–ž› †Ž ¦ ¦¢ ¤¦¡ „œ œ¦ “œŽ¦ œ¢ ™”¦ ³¤ ’ ¥ ‚ˆ¥ œ¢ ¢¦¤¡ ˆ§¢ ¢Ž ³œŽ §Ž œ¥ ‹§ ‹¢¡ Ÿ¤¡ Ÿ”Ž¢š ¦¢ £¤ ”¤Ž œ Ÿ ¦ ¢Ž ž žž ¦¢ £¥ ³ œ§¤¡ ’¢‡ £¤¡ ³ŠŽ ¢¦ ¢¦¤¡ Ÿ¤ ƒŽ ’’œ„¥ ’’œ„¥ ’¢ ¤ ó
“œŽ¦ ¥ ’Ÿ‡§ „§ „§¢¤ ‹¤Ž Ÿ¤¡ ‚ˆ¦ Ž¢ ‹§¢ œŽ ˆƒ ¦¢ ‡£¥ ƒŽ ”¤Ž ¥ ‡„¥ ¦¤ ƒ§Ž œ¤ Ž… ž£¤ó „¤ ‚‡¥ ”‚Ž ‰’¤ ‹ š„Ž ’¥ ³£¥ ¢Ž ‚ˆ¥ œ¤ ¤¦ ‰ž„ ‹¤œ§¤ „¢ ‚¤¢¤ œ¤ –Žš ›¦Ž œ¤ ¦¢¡ ’¥ ‹¤œ§ œŽ ’¥ ¢‹ Ÿ¤¡ …§ž¤ ¢Ž ‚¦ž ¥ ž¥ ³ŠŽ ”¤Ž œ¢ ‡‚ ¤›¤ ¦¢ ¤ œ¦ ‹¤¦ Ÿ…§£¤ ž¤ ¥ £¤ ¦¥ „¢ ’¥ „’œ¤ ¦¢£¤ ŸŽ “Ÿ ¦¢„¥ ¦¤ ’ ¥ ƒ§Ž ˆ¤Š “Ž¢˜ œ¤ Ÿ…§£¤ ž£¤ î
’ –Ž‰ ‹¢ „¤ ‹ Ž £¥ ”¤Ž œ¢ œ¤ Ž… ž ¥ ¢Ž Ž¢ ¥ œ¥ ’¢ ¢Ž œ¢£¤ œŸ ¦ „§ ¢¦ ‚¥ •ŽŽ œ„ ‡¢ ¤œ žŸ‰¦ œ¥ ž£¥ ’ œ¤ ¢‹ ’¥ ‡‹ ¦ ¦¢ „§ ¢¦ ‚¥ ‚ ‚ž¤ ‡’¥ –› ƒŽ ‚¤…§¥ ‹¤œ§ œŽ ¢¦ Š¢“¤ ’¥ ƒ§¢ž ¦ ’Ÿ„ „§ ó ¢¦ –£Ž ‚¥ ƒŽ¢ ‡’ ƒŽ ¢¦ ‡ ‹¤„ „§ ’‚ ’ œ¤ —Ž¢¡ ’¥ Ž £¥ ó ¢¦ œ¤ –Žš ³ œ§ …§ œŽ ‚§¤ ¦ ‹¤œ§„ ó ‡¤’¤ ‡¤„¤ ‡„¤ ƒ¤Ž œŽ ¥ ¢ž¤ í ¢‹ Ÿ¤¡ ž¥ œŽ §Ÿ ¥ ¢ž¤ í „§ƒœ „§ƒœ œŽ ’ž ¥ ¢ž¤ œŽ Š¢“ œŽ ¥ ¢ž¤ ˆ¤ œ¤ ‡¦ ‚¥ ‡ í ‚¥ ‚ ˆ¤¢¡ ’¥ ƒŽ ¦ ¦¢’œ„¤ „§¤ ó ¢¦ œ†Ž ’¢„¥ ’¢„¥ ˆ¢ œ ƒ„ ó ¢Ž ƒœŽœŽ Ž¢ ¥ ž„ ó œ‚§¤ ‹Ž¢¦ ƒŽ ‡„ ¢Ž ƒœŽ œŽ ¦„§¢¡ ’¥ “Ž¦ œŽ„ ¢¤ ’¥ ‚ž Ž¦ ¦¥ó œ¤ Šž¤ œ¢…§¤ Ÿ¤¡ ‡œŽ § …¢¡ ‚¤…§ Ž¦„ó ’¥ Ÿ¤‹ ¦¢„¤ „§¤ œ¦ ¤¦¡ ³„¤ ¦¢¤ó ’ œ¢…§¤ œ ‹Ž¢¦ ‚ ‹ ƒ„ „¢ ‡œŽ œ¢ œ§ œ§ „ œ¦ “¤‹ ‹Ž ˆ§ƒ¤ ‚¤…§¤ ¦¢ ó ”‹Ž‹ Ž¢¦ œ§ž„¥ ’ „ „¢ œ¦¦ œŽ ‹¢„ ó ’Ÿ‡§„ œ¦ ³£¤ ó ’ œ ‹Ž¤ ¦¢ ‚‹ §ž ¤ ó ž‚ œ¥ ’¥ ŽŠ’Ž ’¢œ§ £¥ó Ÿ¡ ¢Ž ‚ƒ ‹¢ ¢ ¡ ’ œ¤ Ÿ¢¦ ¤ ¦ ’¤ œ¥ ž£¥ „Ž’ „Ž’ œŽ Ž¦ ‡„¥ ó Ž ‚¦„ ‹‹ ¥ ¢Ž ˆ§¤ ¥ ’¥ ¦ ’„ ‚§¤ „¢ ¤’ Ÿ˜ž¢Ÿ ¦¢„ ‹ž ’¥ ¦¤¡ Ÿ‰• ‹ž Žœ§ ¥ œ¥ ž£¥ ¦ ’ Ž¦ ¦¥ ó ’¥ ‚ ‹¢‹§ ’¥ Ž™‚„ „§¤ ¦ Ÿ”Ž¤ ’¥ ó ¦ Ÿ¤¢¦ ’¥ ¦ Ÿ¤…§¥ ‚’œ… ’¥ ó ¦ „¤ ŸŽ„¤¢¡ ’¥ ’‚ Ÿ¤¡ Ÿ¦ „‚ ¦¤ „§ó ‡‚ ƒ ¥ ¦„§¢¡ ’¥ œ§ž„¤ „§¤ó ‚ Ÿ¤¡ Ÿ¦ ¦ „§ ‹¢ ’ž œ ¦¢ ¦Ž ž¦ž¦„ “‹‚ ƒ¢‹ ŸŽ‡§ œŽ Ž¦ ¤ó¢¦ žœ ‡’¥ ¢‹ Ÿ¤¡ …§„¥ ¦¤ ŽŸ¤ ŽŸ¤ ¢Ž Ÿ‰‚„ œ ‰’’ ¦¢„ „§ ‚ ’„Š¢¡ œ ¤œ ƒ„ž Ž¦ ¤ „§ ó “œŽ¦ ‚ˆ¦ œ¤ ¤¦ ‰ž„ ‹¤œ§ ‹¤œ§ œŽ ‹Ž¦¤ ‹Ž ƒˆ§„„¤ ó ”‚Ž ‰’¤ ‡¢ š–Ž„Ç Šž¢„ ƒ’ ‹ ³‹Ÿ¤ „§¥ ó ‚ ”¤Ž œ¢ ¢‹ ’¥ ‡‹ ¦ œŽ„¥ „§¥ ó ’¥ Ž¢ ¦¢ œ§ž ¥ ‡„¥ó „ £¥ œ§ž¢ ¥ ž£¥ ó ƒŽ ŸŽ‡§¤ ¦¢ ƒ¢‹ œ’¤ –Ž‰ ¦ ƒ ƒ„ „§ó ‹¤¦ ’ œ¤ ‹ ¤ œ ³š„‚ „§¤ó ’ ›‹Ž„¤ ‰ŽŽ„ ¢Ž Ž¢“ ¤ ’¥ Ÿ‰Ž¢Ÿ ¦¢œŽ ’‚¤ œ¤ ‚¦Ž œ¤¢ œŽ œ§„ ¦ œ¥ ‚™¤Ž ’¥ ˆŽ¢¡ –Žš ‹§¤Ž ’ … —Ž ³„ „§ ‹¢’Ž¤ „¤’Ž¥ ¦¤ ‹ Žœ§ ž¤ „§¤ ƒŽ ”¤Ž ’ œ¤ ”¢Ž„ ‹¤œ§„¥ ¦¤ Ÿ ¦ ˆ§ƒ ž¤„ „§ó ¢¤ ¢¦ œ¢£¤ ‹¤¢ ¤ ¤ ‚§„ ¤ ¦¥ ó
˜žŸ ¢‡¢‹ Ÿ¤¡ ‹¤¦ œ¢ ¦ ‹¤œ§ œŽ ”¤Ž ‚ ¤‹¦ „Ž ˜žŸ Š¤ž Ÿ¤¡ Ž¦„ó ¢¦¡ ’ œ¤ ƒ ¤ ˆž„¤ ƒ§Ž„¤ —Ž ³„¤ „§¤ ó ’ œ¤ ¢¦¤ ¢‹ „§¤ ó ¢¦¤ Ÿ‰‚„í ¢¦¤ ƒ¤Ž¤ ‚„¤¡í ¢¦¤ ƒ¤Ž¥ ƒ¤Ž¥ ¤„í ¢¦¤ Ÿ¥ ‹ ŽŸ…§£¤¡ í ¢¦¤ ’¦ ’ ’ Ž¢¦¤ ‹ž œ“ ž¤ž ¢ ¦Ž œ¤ž¥ ‚¤…§¥ ’¥ ‚„¤¡ œŽ„ ó œ„ ‚§¢ œí £¥ ‹¢‹§ ‹¤„¤ ¦¥ ó ‡ž §¢ ‹¢ó ’¢¤Ž ¦¢„¥ ¦¤ ž¢… ž¥ œŽ ‹¤¦ œ¤ œ¢…§¤ Ÿ¤¡ ‡„ í ¢Ž œ¦„ þþ ƒ ¤ ƒ¤ ýý ‹¢‹§ œ ž’ ž¥ œŽ ’ œ¤ œ¢…§¤ Ÿ¤¡ Žœ§ ³„ ¢Ž œ¦„ þþ ‹¢‹§ ƒž ýý ƒ ¤ ˆŽ ƒ£¤ ƒŽ „œ¤¦ Žœ§ œŽ ˆ‹Ž ’¥ Œ§ œ ‹¤„ ¢Ž œ¦„ þþ ’¢„¤ ýý “œŽ¦ œ§ œ§ ¥ ‚¤…§„¤ „¢ Žœ‚¤¡ …§ …§ œ¤ œ¢…§¤ Ÿ¤¡ ž¥ ‡„ ¢Ž œ¦„ þþ œ§ œ§£¥ ¤ ýý ’ œ¥ ž¤¥ ‚ ¤œ ³’Ÿ ¤ ¢‡¢‹ „§¤ ‡’ œ¤ ¢ƒ’¤ œ¤ ’¥ Ÿ–ž› Ÿ¤‹ ¦ „§¤ ó ¢¦ Ÿ‰• “„¦ Š¢“¤¢¡ œ¤ ‹ž œ“ ¤‹ Ž „§¤ ó ‡’ œ¤ ¤‹ ¦¤ ’ œ ’‚ œˆ§ „§¤ ó ”¤Ž œ¥ ‹ Ÿ¤¡ Žš„¦ Žš„¦ –šž ¦ “¢Š¤ ¢Ž ‚¥ „‚¤ œ¤ ‡¦ ¤œ ‰’Ž„ œ „¢œž ¤œ Ÿ¤¢’ ¦ Š¢“¤ —Ž ³ ¥ ž¤ ó ’ –Ž‰ „¤ ¦š„¥ Ž £¥ ó ‚Ž’„ œ Ÿ¢’Ÿ „§œ‚§¤ “‹„ œ¤ ŽŸ¤ œ‚§¤ ¦¢ œ¥ …§ Œ¥ ‡§¢ œ¥ ó ‚ŠŽ ¢Ž œŸ œ ¢Ž „§ ”¤Ž œ¤ ‡š„ Ÿ¢’Ÿ¤ „™¤Ž„ œ¢ ‚Ž‹“„ ¦ œŽ’œ¤ “œŽ¦ í ‰„¤–Ç ’¥ šžž¤ œ œŽ„ ƒ¦ £¥ Žœ§„¤ ’¥ ƒ ¤ œ¥ ›Ž¤‚ ¦ ‡ ¥ ‹¤„¤ í ¥ ƒ£¢¡ ¤œ ›‹Ÿ ¦ ˆž ¥ ‹¤„¤ ŸŽ Ž–¢‚„ œ †Ž ¦¢ ¦¤ ¤ ”¤Ž œ§ ’¤ ¢Ž ‚ŠŽ Ÿ¤¡ Ÿ‚„ž ¦¢ ¤ ó
”‚‰ œ ¢›„ „§ ”¤Ž ˆŽƒ£¤ ƒŽ ³ œ§¤¡ ‚ ‹ œ£¥ ƒ „§ Œœ…Ž¢¡ œ ˜ž‡ ‚¥ ’¢‹ ¦¢ Ž¦ „§ ó “œŽ¦ ˆŽ ƒ£¤ ƒŽ ‚¤…§¤ ’ œ¥ ’¤ ¦ ƒŽ „¤ž œ¤ Ÿž“ œŽŽ¦¤ Ž¦¤ „§¤ ¢Ž ”‚Ž ‰’¤ ”¢Ž„ ™Ÿ ‚ ¥ ¦¢£¥ ‚ˆ¦ œ¢ ƒŽ‹Ž‹ ¦¢¡ ’¥ ‹¤œ§ Ž¦¥ „§¥ ó ’ –Ž‰ ¢¦ “œŽ¦ ’¥ ‚¦„ œŸ ‚¢ž„¥ „§¥ ¦¤¡ ’ ’¥ ¤œ šŽ„ ’¤ ¦¢£¤ „§¤ ó ¢¦ ”¤Ž œ¤ ’ ‚¤ŸŽ¤ œ ’Ž žŸ ’¤ œ¥ ’Ž Žœ§„¥ „§¥ ó ¢¦ œ¤ ¦¢¡ Ÿ¤¡ ¦¤„ œŸ —Žš ’šž¦ Ÿ‡ ‚¥ ‰’ ˜¢Ž„ „§¤ ó
“œŽ¦ ¥ ŒŽ„¥ ŒŽ„¥ œ¦ ³‡ ‚¥ ‰œ¤Ÿ ”‰‚ œ¢ ‚ž ž¤„¥ “¤‹ ¦¤ œ¤ ‹¢ ’¥ š£‹¦ ¦¢ ”‚Ž ‰’¤ ¥ œž¤ §…£¢¡ œ¤ –Žš ‹¤œ§ œŽ „Ž“¤ ’¥ ‡¢‚ ‹¤ þþ‚¥ ‰œ¤Ÿ ž›Ÿ ‚§¤ ³£¤¡ „¢ ’¥ œ¢£¤ š £‹¦ ¦ ¦¢ óýý
“œŽ¦ ‚¢ž¤ þþ„¢ œ¤ ‚ œ’¤ œ¤ ‹¢ ¦¤ ¦ ¦¢¤ îýý
”‚Ž é‚’ ’ œ¤ ¤œ ¦¤ ‹¢ ¦¥ ¢Ž ¢¦ ¤‚ ¦¥
“œŽ¦é „Ÿ¦¤¡ „¢ ¢¦¤ ‹§ ’¢Ž ¦¥í ¢¦ œ¤ ˜‚’¤ ŸŽ„ ƒž ‹¥ ¤î
”‚Ž 馡 ¢¦ „Ÿ¦Ž¥ ž£¥ ˆ¦¥ ¦Ž ¦¢ ž¤œ ‚ˆ¥ œ¥ ž£¥ ŸŽ„ ¦¤ ¦¢ ¤ó
“œŽ¦ 韤¡ ¦¤¡ ’Ÿ‡§„¤ œ¦ žž¦ œ¤ ŸŽ•¤ Ÿ¤¡ ’¥ „ ‹Šž ¦¥ ó
”‚ŽéŽ ¦¤¡ ’Ÿ‡§„¤ ¦¢ ¢Ž ‚ „œ ¦¤¡ ’Ÿ‡§ „¢ Ž¢£¢ ¤ 킈¥ ’¥ ¦„§ ‹§¢ ƒ¥ ó
“œŽ¦ 鈃 ‚§¤ Ž¦¢ œ¤’ “¢ ‚ ’¥ œž„¥ ¦¢ Ž ¤’¤ ‡ž¤ œ…¤ ’ ¤ ¦¤¡ „¢ ¤¦¡ ’¥ ˆž¥ ‡£¢ó
”‚Ž 馡 „¢ Ÿ¤¡ ‡„ ¦¢¡ ŸŽ ¤‹ Žœ§¢ ¤¦ Š¢ „Ÿ¦Ž¤ Ž‹ ƒŽ ¦¢ Ž žœ¥ œ¢ ƒ§Ž „ ‹Ž’„ ‹¤œ§ ˆ¦„¤ ¦¢ „¢ ’ ˜‚’¤ œ¥ ƒ’ ‡£¢ ’ œ¤ Ÿ „ œŽ¢ ž„‡ œŽ¢ „Ÿ¦Ž¥ ‚ˆ¥ œ¤ ‡ œ¥ Ž‰Ÿ ƒŽ Ÿ ‰”Ž ¦¥ ó
“œŽ¦ ¥ œˆ§ ‡¢‚ ¦ ‹¤ ’ œ¤ ³ œ§¢¡ ’¥ ³ ’¢ ‡Ž¤ „§¥ ó ”‚Ž ‰’¤ ¥ ƒ¢ˆ§ œ¤ ŸŽ•¤ ¦¥ ‡£¢¡ ’¥ „ž“ œŽ¢¡î
“œŽ¦é „Ÿ œ¤¢¡ ‡£¢ ¥ Ÿ¤¡ Š¢‹ ˆž¤ ‡£¢¡ ¤ó
”‚Ž é ¦¤¡ Ÿ˜š œŽ¢ Ÿ‡§¥ „Ÿ¦Ž¥ ¢ƒŽ ˜„‚Ž ¦¤¡ ¦¥ ¦ ‡ ¥ „Ÿ¦Ž¥ Ÿ ¦ ’¥ œ¤ œž ‡£¥ œ¦ ¢¦ ³„¤ ‚§¤ ¦¢ „¢ ¦ ³£¥ ó
“œŽ¦ ¥ “¢¦Ž œ¤ –Žš ¦ ŸžŸ„ ’¥ ‹¤œ§ œŽ œ¦ þþ¦¡ ¢Ž œ¤ Ÿ‡§¥ ƒ ¥ ‚ˆ¥ œ¤ ‚¤ŸŽ¤ œ ›ž› „§¢¥ ¦¤ ¦¥ Ÿ¤¡ ¥ “ŽŸ œ¥ ŸŽ¥ „Ÿ ’¥ œ¦ ¦¤¡ ž¤œ Ÿ¤Ž¥ ‹ž Ÿ¤¡ ‚ Ž‚Ž ¤¦ Š¤ž ƒ¤‹ ¦¢ ¦¥ Ž Ÿ‡§¥ ‹¤¦ œ¥ Ÿœ œ ƒ„ Ÿ˜ž¢Ÿ ¦¢„ „¢ Ÿ¤¡ ’¥ œ‚ œ¤ Ÿ ž£¤ ¦¢„¤ í ¢¦ Ÿ‡§ ’¥ œ„ ¤ ¦¤ Ž• ¦¢ ž¤œ ”¤Ž ’¥ ’¥ Ÿ‰‚„ „§¤ Ÿ¤¡ ³‡ ¦¤ ’ œ¥ ƒ’ ‡£¢¡ ¤ ’ œ¥ ›‹Ÿ¢¡ œ¢ ³ ’¢£¢¡ ’¥ „Ž œŽ‹¢¡ ¤ ¢Ž ¢¦ ‡’ –Ž‰ Ž•¤ ¦¢¤ ’¥ Ž•¤ œŽ¢¡ ¤ ýýó
“œŽ¦ ¥ ‚¦„ •‚– œŽœ¥ ¤¦ ‚„¤¡ œ¦¤¡ ŸŽ Ÿ Œ¥ ¦¢£¥ ³ ’¢ ‚ ¦ Žœ ’œ¥ ó ”‚Ž ‰’¤ ¥ ‚¤¢¤ œ¤ –Žš ¦Ÿ‹Ž‹ ¦ ¦ ’¥ ‹¤œ§ ¢Ž ‹Ÿ ¦¢œŽ ‚¢ž¥ Ÿ¤¡ „Ÿ¦Ž ‡ Ÿ ’‚ ¦¤¡ ’Ÿ‡§„ ó Ÿ¤¡ Š¢‹ ¦¤ ‡„ ¦¢ ¡ó
èèè
³¤˜‚’¤ ‹ ¤ Ÿ¤¡ œ¤ž¤ „§¤ œ’¤ Ÿ ¥ Ÿ¤¡ ’ œ Š ‹ ž‚ œ ’Ž ’‚ “‹‚ ‹ŽŠ„ „§ ŸŽ Žš„¦ Žš„¦ Š¡ ¥ ’‚ ƒ„¤¡ Ž‹¤¡ ‚‹ª‰¢‹† ¥ ‹ŽŠ„ œ¢ ƒŸž œŽ‹¤ ¢Ž ‚ ¤¦¤ ¤œ ’¢œ§¤ …¦ ¤ ¦Ž¥ ‚§Ž¥ ‹ŽŠ„ œ¤ ¤‹Ž ‚›¤ „§¤ ó ŸŽ ”¤Ž œ¢ ƒœŽ ’ œ¤ ’¢œ§¤ …¦ ¤ Ÿ¤¡ ‡ ’¤ ƒ £¤ „§¤ ó ’ Ÿ¤¡ ¦Ž¤ ¦Ž¤ ƒ„¤¡ œž ³£¤ „§¤¡ ó ¢¦ ‹¤ ‡¢ ‚ „œ Š“œ ¢Ž ƒŸž „§¤ ’ Ÿ¤¡ ƒ§Ž Ž ¢‚¢ œ¥ ³†Ž ƒ¤‹ ¦¢ £¥ „§¥ ó ‹§¤Ž¥ ‚¤‚ Ÿ¤¡ ‚§…œ„¥ ¦¢£¥ Ÿ’šŽ œ¢ “Ÿ˜ œ¤ ‡§žœ —Ž ³ ¥ ž¤ „§¤ ’ œ ‡¢£¥ ‰¤„ ’ Ž¤¢¡ ’¥ ¦ …œŽ„ „§ ¢¦ ‚ ¤œ žŽ œ¤ ³‚¤Ž¤ œŽ„ „§ ‚ ’ œ¤ ‹¤ Ÿ¦Ÿž ¦¤¡ „§¤ ’ Ÿ¤¡ Ÿ˜ ¤ ƒ¤‹ ¦¢ £¥ „§¥ ó ˜‚’¤ ”¤Ž œ¤ ‚§¢ž¤ ‚„¢¡ ƒŽ †Ž ¦¢ £¤ ŸŽ ¢¦ ƒ ¤ Ÿ‰‚„ œ¢ “œŽ¦ ’¥ ˆ§ƒ„¤ „§¤ ’ ž¤¥ œ¦ Ÿ¡ œ¥ ‹ž Ÿ¤¡ Ž“œ ¦ ¦¢ ¢¦ ”¤Ž œ¥ ž¤¥ Ÿ¡ ’¥ ˆ§ƒ œŽ Ÿ…§£¤¡ ž„¤ ¢Ž ’¥ œ§ž œŽ Š¢“ ¦¢„¤ó ¢¦ ‹ Ÿ¤¡ ‹¢ ‹¢ „¤ „¤ ‚Ž ’¥ ‚… Ÿž„¤ œ¦ ‚ˆ¦ Š¢‚ ƒŽ¢ ˆ§¥ ó ¢¦ ’¥ ‹¢’Ž¢¡ œ¥ ’Ÿ ¥ œ¢£¤ ˆ¤ ¦ œ§ž„¤ œ¦ ‚ˆ¥ œ¢ —Ž ¦ ž ‡£¥ ó ¦Ÿ¤“¦ ‹¢’Ž¢¡ ’¥ ‚ˆ¥ œ¤ œŸ Š¢Ž¤ œ Ž¢ Ž¢¤ œŽ„¤ ó ’¥ —Ž ‚‹ ’¥ ‚ˆ ¥ œ¥ ž£¥ „˜¢¤ ¢Ž Œ¥ ž„¤ Ž¦„¤ ¤¦ ’ œ¤ Šž” Ÿ‹Ž ¦ Ÿ‰‚„ „§¤ ‡’ Ÿ¤¡ ƒ ¥ Ž¢‰ ¤ ‰„—— œ¥ ’¢ ¢Ž œ¢£¤ ™Ž• ¦ „§¤ ó
’ §Ž ’¥ œž œŽ ³‡ ˜‚’¤ œ¤ ¢¦ ‰ž„ ¦¢ £¤ ‡¢ „§¤…Ž Ÿ¤¡ ¤œ ¤œ ‚‡ž¤¢¡ œ¥ ž ¦¢ ‡ ¥ ’¥ ¦¢„¤ ¦¥ ’ œ¤ ³ œ§¢¡ œ¥ ’Ÿ ¥ ¢¦¤ ”¢Ž„ ˆ Ž¦¤ „§¤ œ ¢¡ Ÿ¤¡ ¢¦¤ ƒ¤Ž¤ ƒ¤Ž¤ ‚„¤¡ ¢ ‡ Ž¦¤ „§¤¡ ’¥ ƒ §Ž ƒ§¥ œ§„ „§ ’ œž œ¢…§¤ Ÿ¤¡ ‹Ÿ §… ‡„ „§ ó
Ž„ ‡¢¡ „¢¡ œŽœ¥ œ…¤ ”‚‰ œ¢ ¢¦ Ÿœ Ÿ¤¡ ‡§¢ ‹¥ Ž¦¤ „§¤ ¤œ ¤œ „¥ ‰ž¢¥ œ¤ ”‹ ’ œŽ ‚¥ Š„¤Ž ‚¦Ž œž ³£¤ í¤‹ ³¤ ³‡ ‰ž¢¦ œ¢ œ§£¥  ¢‹ Ÿ¤¡ ‚¤…§ œŽ œ¢ ˆ¦œ¥  ™Ÿ¦ Ÿ’Ž„ ’ ¥ œ¥ ž£¥ ‡¢ ‰ž¢ œ§„¥ ¢›„ ”¤Ž œ¤ ³ œ§¢¡ ’¥ í ¦¢ …¢¡ ’¥ ¢Ž ‡’Ÿ œ¥ ¤œ ¤œ ˜•¢ ’¥ ‚Ž’„ „§ ˜‚’¤ œ¤ Ž¢‰ „ƒ …§¤ ¢¦ ‚¥ ›ŽŽ¤ œ¥ ˜žŸ Ÿ¤¡ §Ž ’¥ œž¤ œ¦ ˆž¢¡ ”¤Ž œ¢ ‹¤œ§ ³£¢¡ ƒŽ ³‹§¥ Ž’„¥ ’¥ ž¢… £¤ ó
”¤Ž ˜‚’¤ œ¥ ‹§¤ ’¥ ¤œ žŸ‰¦ œ¥ ž¤¥ ‚§¤ ¦ „Ž„ „§ ó¢¦ ’¢„¥ ’¢„¥ ˆ¢ œ ƒ„¤ Ÿ˜ž¢Ÿ ¦¢„ ”¤Ž Œ Œ¥ œ §¢ ‹‚£¥ ˆž ³„ ¦¥ ó ƒ¢’ ¢¡ œ¥ ƒ’ ‡„¤ „¢ ”¤Ž ¦¤ œ ˆŽˆ œŽ„¤ ’ œ¥ §Ž œ¢£¤ ³„ „¢ ”¤Ž ¦¤ œ œŽ œŽ„¤ ”¤Ž ’ œ¥ ‹ž ¢Ž ‡ Ÿ¤¡ ‚’ ¦¢ „§ “œŽ¦ œ¤ ‚¥ ŽŠ¤ ¢Ž ‚‹’ž¢œ¤ œ¥ Ÿžž œ¥ ž¤¥ ’ Ÿ¤¡ ‡¦ ¦ „§¤ ó
¢¦ Ž¢ Ž‹¦ œŽ„¤ œ¦ ³‡ ”¤Ž œ¢ ‹¤œ§ ¥ ‡£¢¡ ¤ ’ œ¥ ž¤¥ ‚Ž ’¥ œ§ž¢ ¥ ¢Ž Ÿ…§£¤¡ ž„¤ §Ž ’¥ ˆž„¤ ž¤œ œ‚§¤ ³‹§¥ Ž’„¥ ’¥ ž¢… ³„¤ œ‚§¤ ‹¢ ˆŽ ›‹Ÿ ’¥ ³¥ ¦ ‚§ ‡„ ó œ¢ ’ Ÿ ¦ ž¤œŽ ‡£¢¡î ‡¢ Ÿ‰‚„ œ¢ šŽ¤‚ ’Ÿ‡§„ ¦¢ ’¥ œ¢ ’ Ÿ ¦ ‹œ§£¢¡ œ‚§¤ ’¢ˆ„¤ œ¦¤¡ ”¤Ž Ÿ‡§¥ ¦ ƒ¦ˆ ¥ 킈¢¡ œ¤ Ÿ‰‚„ œ ˜„‚ Žî £¤ ‹¤¦ ’¥ ƒŽˆ ¤ ¦¢ í ¤¦ Š¤ž ’ œ¥ ƒ¤Ž¢¡ ƒŽ ‡¤Ž œ œŸ œŽ ‡„ „§ ó
’ –Ž‰ ‹¢ ¦š„¥ Ž £¥ í ˜‚’¤ œ ‹ž ¦Ž ‹Ÿ ˆ… Ž¦„ ó ‡¤’¥ ’¥ œ¢£¤ žŸ‚’šŽ ‹Ž ƒ¤“ ¦¢ í§Ž œ¤ ˆ¤¤¡ ‡¦¡ œ¤ „¦¡ ƒ¤ Ž¦„¤¡ ¦ œ§ ¥ œ¤ šœŽ ¦ œƒ¥ œ¤ í‚‹ ¤ •Ž¢Ž¤„ ‚§¤ Šž ‹ž œ¢ ƒŽ œŽ ¥ Ÿ¤¡ ž¤ ¦¢£¤ „§¤¡ó „š› ’¥ ’¤ † Ÿ¤¡ ‰‡ œ¥ ‹ ³£¥ Ÿ‰ž¦ Ÿ¤¡ œˆ§ ž¢ ‰‡ œ¤ „¤Ž¤¡ œŽ ¥ ž¥ ˜‚’¤ œ¤ ‰ž„ ’ ¢›„ ƒž„¢ ˆ¤ œ¤ ’¤ „§¤ ‡¢ ›š’ ’¥ œž œŽ ƒ§Ž œ’¤ ¢“¦ œ¤ „ž“ Ÿ¤¡ ¦¢ ’¥ ƒ ¥ „£¤¡ ‚§ž ‹¤ ¥ œ ¤¦ ¤œ ‚¦ ¦ Ÿž ¤ ³Ÿ‹¦ ’šŽ ¦¢ £¤ ó
³’Ÿ ƒŽ œž¤ §…£¤¡ ˆ§£¤ ¦¢£¤ „§¤¡ ¢Ž ¦žœ¤ ¦žœ¤ ƒ§¢Ž ¤¡ ƒ Ž¦¤ „§¤¡ ó ‹¦ž¤ ’…¤“ ƒŽ £Ž¤ œ ¦‡¢Ÿ „§ œˆ§ ¤¢¡Ÿ¤¡ ‚¤…§¥ „§¥ œˆ§ ƒ ¥ §Ž ¢ž¢¡ ’¥ ŽŠ”„ ¦¢ Ž¦¥ „§¥ ó ˆŽ¢¡ –Žš ¤œ œ¦ŽŸ ’ Ÿˆ ¦¢ „§ ó ‹ ¤ ’ ¢›„ ‚§¤ ‡ ¥ ¢ž¢¡ œ¥ ‹Ÿ ƒœ¥ ¦¢£¥ „§¤ó œ¢£¤ ‚¤¢¤ ’¥ „œ¤‹ œŽŽ¦ „§ ‹§ œ… ‡£¥ „¢ „ž‚ ¢ž¥ œ§¤„ Ÿ¤¡ Ÿ…Ž‚¢‹¤ ¢Ž ‚™ œ¥ ƒ’ ¤¦¢¡ œ¢£¤ ƒ ¥ ‡¢ žœ¥ œ¢ ’Ÿ‡§ Ž¦ó ¤œ ‚¢§¥ „‡Ž ”‰‚ ƒ ¥ Ÿ ¤Ÿ ’¥ œ¦¦ Ž¦¥ „§¥ ó Ÿž ³ ¥ Ÿ¤¡ ‹¤Ž ¦¢ „¢ Š¢‹ ˆž¥ ‡£¤¥ ¢ŽŸž ž¤‡£¥ ¢Ž ¦ Ž¢ƒ¤¦ ƒ§ ’ ‡£¥ ŸŽ Šž Šž ¤’¤ ”¢Ž„¤¡ ‚§¤ —Ž ³„¤ „§¤¡ ‡ ƒŽ Ÿ¦‚¤ Ž‹„ œ ‡ž¢¦ „§ ó¢¦ ¤ „¢ ŠŸ¢“ ³’Ÿ œ¤ –Žš „œ„¤ „§¤¡ ¤ Ÿ‰¢ „’‚¤‰ Š¢ ¤ „§¤¡ ó ˜‚’¤ ‚§¤ ¤œ ¤ Ÿ¤¡ ‚¤…§¤ ’¢ ˆ Ž¦¤ „§¤ ‚§ž¥ ³‹Ÿ¤¢¡ œ¢ ‚ ‚§¤ ‹ ¤ œ¤ šœŽ ¦¤¡ ˆ§¢„¤í ¢¦¤ ŠŽ¤‹¢šŽ¢Š„ ž¤ ‹¤ œ¥ ˆŽˆ¥ ”¤Ž ’ ¢›„ ¤¦¡ ¦¢„ „¢ ‚¦„ Ž¢„ ó Ÿ¤Ž¤ ¢‹ ’¥ œ’¤ –Ž‰ ¦ „Ž„ ó ž¢… œŽ •Ž¢Ž ’¥ ‹¤œ§ ¥ ‡£¢¡ ¤ ¤ žž¦ œ’¤ –Ž‰ ¤ ˆž¥ ŽŸ¤ œ¥ ŸŽ¥ œž¤‡¦ ‚§ ‡„ ¦¥ó „ ¤ §… Ÿ Œ¤ ¦¢£¤ ¦¥ ‚Ž’ ¥ œ Ÿ ¦¤ ¦¤¡ ž¤„¤ Ÿ˜ž¢Ÿ ¦¤¡ ¤¦ Ž¤ž ¢ž¥ œ¤¢¡ ‹¤Ž œŽŽ¦¥ ¦¤¡ ¢… Ÿ¢… ‹§Ž ‹§Ž ‹¢¥ ƒ§Ž„¥ ¦¤¡ ¤¦ ¦¤¡ œ¦ ˆ… ƒ… ¤ œ§¢ž ‹¤¡ Ÿ’šŽ¢¡ œ¤ ‡ Ÿ¤¡ ‡ ³£¥ó ¤œ ¤œ ’ ¥ ”‚Ž ‰’¤ œ¢ ‚£¤’œž ž£¥ ƒž¤… šŽŸ ƒŽ ³„¥ ‹¤œ§í œ ˆ¦Ž¦ „Ž ¦¢ „§ ¢Ž œƒ¥ „Ž „§¥ ¢¦ ¤¢¡ Ÿ¤¡ ‡§ œ ¥ ž¥ ˜‚’¤ Ÿ‰• ¤¦ ‹œ§ ¥ œ¥ ž£¥ œ¦ Ÿ¤¡ ‚§¤ ‰‡ œŽ ¥ ‡Ž¦¤ ¦¢¡ ¤ ’¥ ‚¦Ž œž ³£¤ ”‚Ž ‰’¤ ’¥ ‹¤œ§„¥ ¦¤ žƒœ œŽ ›Ž¤‚ ³£¥ ¢Ž ‚¢ž¥ þþœ¤¢¡ ˜‚’¤ „Ÿ ‚§¤ ‰‡ œ¢ ˆž¤¡ îýý
˜‚’¤ ¥ šŠŽ¤¦ œ’Ž ’¥ œ¦ þþ¦¡ Ú¤¦¡ œ¤ œŽ¢¡ ê ‹¤ œ œ¢£¤ …§œ Ÿ˜ž¢Ÿ ¦¤¡ œ‚ ³ œ§¤¡ ‚ ‹ ¦¢ ‡£¤¡ Š‹ œ¥ ¤¦¡ Ÿ ¦ ‹œ§ ¥ œ¥ ž¤¥ ‚§¤ „¢ œ¢£¤ ’Ÿ ˆ¦¤¥ ”¤Ž Ÿ¤¡ „¢ ˆ§¤ –Ž‰ ¦¤¡îýý
”‚Ž é‚ „¢ „Ÿ ‡Ž¦¤ ¦¢ ”¤Ž œ ‰ž ƒ¢ˆ§ œŽ œ¤ œŽ¢ ¤ ’ œ¥ ž£¥ ‹˜ œŽ„¤ Ž¦ í ˜‚’¤ œ ’¤ ¦ ‹§œ ¥ ž¥ §‚Ž œŽ ‚¢ž¤ þþœ¤ œ¤ –‚¤˜„ ˆ§¤ ¦¤¡ ¦¥ îýý
”‚Ž ’ œ¤ –‚¤˜„ „¢ ’¤ ‹ ’¥ ŠŽ‚ ¦¥ ‡’ ‹ „Ÿ ¢¦¡ ’¥ œž¤¡ œ¢£¤ ‹¢ ¦š„¦ „œ „¢ “‚ ¢Ž¢ œ¤ Ž… ž„ Ž¦ ¢Ž ‚ ¤œ ¦š„¦ ’¥ œ§ ’¤ ¢Ž ‚ŠŽ Ÿ¤¡ Ÿ‚„ž ¦¥ó ’Ž¤ ‹¢£¤¡ œŽœ¥ ¦Ž ¤ œ¢£¤ š˜ ¦¤ ¦¤¡ ¦¢„ Ÿ¤¡ ¥ Ž‹¦ œ¤ „§ ˆž œŽ „Ÿ¦Ž¤ Ÿ „ ’Ÿ‡„ œŽœ¥ ž¥ ˆž¢¡ œ¤ ‡ ¥ „Ÿ¦¤¡ ‹¤œ§ œŽ ’ œ¤ –‚¤˜„ œˆ§ ’ ‚§ž ‡£¥ ž¤œ „Ÿ¦Ž¥ §Ž ƒŽ ³¤ „¢ Ÿ˜ž¢Ÿ ¦¢ œ¦ „Ÿ ‰‡ œŽ ¥ ‡Ž¦¤ ¦¢ó ‚ œ’ Ÿ ¦ ’¥ ˆž ¥ œ¢ œ¦¢¡ ó „Ÿ¦Ž¥ ’„§ ’ž¢œ ¦¤ œ¢ ’ ˆ§ œ¤ „§ œ¦ „ ¤ ‡Ž„ œŽ’œ¢¡ ¢Ž ƒ§Ž œŽ †¢‚ Ÿ¤¡ ŽŠ ¦ Œž ¥ œ ‚§¤ Š¤ž ¦¥ó ‡£¢Ú’ œ Š‹ ‰š— ¦¥ ‰¤„ ‚›¤ ¦¥ „¢ ”‰„ ¦¢ ¦¤ ‡£¥ ¤ ó ¢Ž ¦ Ÿ“¤„ ¤‹¤ ’¥ œ¤ ˆŽ¦ î
˜‚’¤ œ¤ ³ œ§¢¡œ¥ ’Ÿ ¥ ‹§¤Ž ˆ§ ¤ ’Ÿ ¥ œ¤ ˆ¤¤¡ „¤Ž„¤ ¦¢£¤ Ÿ˜ž¢Ÿ ¦¢£¤¡ ‹ž ƒŽ ¤œ ˜‡¤‚ ¢‰“„ œ ™ž‚¦ ¦¢ ‹ž ’¥ ‹˜ œž¤ þþžž¦ Ÿ¤Ž¤ ‡ œ¥ ”‹›¥ Ÿ¤Ž¥ ”¤Ž œ ‚ž ‚¤œ ¦ ¦¢ýý󎛄 ’¥ ž ‚§Ž ³¤ Ÿ¤¡ œ¤’¤ ’ ‹ž ¦¢¡ ƒ¤Ž ‚ˆ¦ Ž¢ Ž¢ œŽ ¦žœ ¦¢ ¤ ¢Ž ’¥ ‹¤œ§ ¥ „œ ¦ £¤ “œŽ¦ ‚‹Ÿ‡ ’¦¤ ‚‹‚ ’¦¤ ŸŽ ”¤Ž ¥ Ÿ¤Ž œ¤ ‚ „§ ¡ ¥ Ÿ¡ œ ‚‹ž¦ ”¤Ž ’¥ ž¤ ¤ Š‹ Ÿ¤Ž ¦ ‚Š“¤¢ Úƒ¤Ž ”¤Ž Ÿ¤Ž¥ ž£¥ „ƒ Ž¦ ¦¥ â’ Š¤ž ’¥ ˜‚’¤ œ œž¤‡¦ Ÿ’¢’ …§ ¢Ž ³ œ§¢¡ ’¥ ³ ’¢ ‚¦¦ œž¥ á Ÿ‡§¥ œ¤ Ÿ˜ž¢Ÿ „§ œ¦ ’¥ Ÿ‡§ ’¥ „ ¤ Ÿ‰‚„ ¦¥ ¢Ž ¦ “œŽ¦ œ¤ ‡¢„¤¡ œ§„¤ ¢Ž §Ž ’¥ ›‹Ÿ ¦ œž„¤ ³¦ Ú ¦ Ÿ˜ž¢Ÿ ‚¤ˆŽ¥ œ¤ œ¤ ‰ž„ ¦¥ î ‹ ¢‰“„ ‚¢ž¤ þþ‹¢‹§ „¢ ƒ¤„¥ ¦¤¡ îýý
”‚Žé „Ÿ ‹¢‹§ ƒ¤ ¥ œ¢ œ¦„¤ ¦¢ ’ ¥ ‹¢ ‹ ’¥ ³ œ§¤¡ „¢ œ§¢ž¤¡ ¦¤¡
˜‚’¤é ¤ Ÿ¤Ž¥ žž¦ ÚŽ¥ ¢ ›ž¤Ú ›ž¤ Ú‚¤… ÚÚ³œ¥ Ÿ¤Ž ’‚‚ ¤ ’¥ „Ž ‹¥ ‚ Ÿ‡§¥ ‰‡ ¢‡ œ¤ ¦¤¡ ’¢‡§„¤ ¦¡ ‚¤… Ú‡ž‹¤ œŽ Ÿ¤¡ ‹¤œ§¤¥ œ¢£¤ ¤œ¦ ¦¢ „¢ ž¥ ³£¤¥ Ú
¤œ¦ Ž¢ ¦ ¦¢ ’Ÿ ¥ ’œ ƒŽ œ£¤ ‚§¤¡ œ§¤ „§¤¡ §¢ ³¦’„¦ ³¦’„¦ ˆž Ž¦ „§ ˜‚’¤ ‚Ž ‚Ž ‡§ ‡§ž „¤ „§¤ ¢Ž ¤œ¦ ‚ ’¥ œ¦„¤ „§¤ ‚¤… ‡ž‹¤ œŽÚŸ¤¡ „‡§¥ œˆ§ ¤‹¦ ‹¥ ‹¢¡ ¤ Ž’„¥ Ÿ¤¡ Ÿ’šŽ¢¡ œ¤ ‚§¤ ‹¤œ§ œŽ ’¥ ™”¦ ³„ „§ ¢Ž ’ œ ‡¤ ˆ¦„ „§ §¢¥ œ¥ ƒŽ ž ‡„¥ ž¤œ ‡‚ ”‚Ž ‰’¤ œ Ÿœ ›Ž¤‚ ³¤ „¢ ˜‚’¤ œ ’¤ ¦ ¢Ž ’¥ ˆ§ž ¥ ž ‚Ž ‚Ž ‹ž ’¥ ‹˜ œž ¥ ¤ Š‹ œŽ¥ ’‚ Š¤Ž¢˜š¤„ ¦¢ ó
¤œ¦ ”‚Ž ‰’¤ œ¤ ž¤ Ÿ¤¡ ‹Šž ¦¢ ‹š˜„Ç ˜‚’¤ œ¥ œ Ÿ¤¡ œ’¤ œ¥ Ž¢ ¥ œ¤ ³¢ ³£¤ ’ œ œž¤‡¦ Ÿ ¦ œ¢ ³¤ ’Ž „¤¢Ž ¤ Ÿ˜ž¢Ÿ ¦¢ ‹Ž¤ Ÿ¤¡ Œ¢‚¤ ‡„¤ ¦¢¡ ‡¤ ˆ¦ ¤œ¦ ’¥ œ¢‹ ƒ¢¡ ŸŽ Ž ‹¤Ž Ÿ¤¡ Ÿ˜ž¢Ÿ ¦¢ œ¦ ˜¢Ž„ Ÿ¤œ¦ ’¥ ‚‹ ¦¢Ž¦¤ ¦¥ ó „’œ¤ ¦¢£¤ ó
³ŠŽ ”‚Ž ‰’¤ œ Ÿœ ³ƒ¦ ˆ ˜‚’¤ ¥ ŒŽ„¥ ŒŽ„¥ ‹Ž¢¥ œ¤ –Žš „œ ‡¤’¥ œ¢£¤ §Ž ’¥ ‚§ ¦¢ ¤„¤Ÿ žœ “Ÿ œ¢ ‚§¢œ ƒ¤’ §Ž ³£¥ ¢Ž ‹Ž¢¥ œ¤ –Žš ’¦Ÿ¤ ¦¢£¤ ¦ ’¥ ‹¤œ§¥ œ¦ œ¢£¤ ‚¤…§ „¢ ¦¤¡ ¦¥ ó ‹Ž¢¦ ƒŽ ’ … ˆ§¤ ¦¢ „§ ‚¢Žˆ¤ ‚¤…§ ¦¢ ‰›¦ ƒ¤ Ž¦ „§ ˜‚’¤ œ¢ Ž Œ§Ž’ ¦¢£¤ §ŽŸ¤¡ ‹Šž ¦¢£¤ „¢ ‹¤œ§ œ¦ £¤ ‹¤¦ œˆ§ ƒœ Ž¦¤ ¦¥ œž¤‡¦ Ÿ•‚¢– ¦¢ “œŽ¦ œ¥ œŸŽ¥ £¤ „¢ ’ œ ‹ž ŽŸ œ¤ ‹¢ƒ¦Ž¤ ‹§¢ƒ œ¤ –Ž‰ œ ƒ Ž¦ „§ “œŽ¦ ”¤Ž œ¢ ¢‹ Ÿ¤¡ ž£¥ ‹Ž¢¥ œ¤ –Žš …œ…œ¤ ž£¥ „œ Ž¦¤ „§¤ ™Ÿ ¢Ž ¤’ œ¤ ‹¦ „”¢¤Ž ‚ ¤ ¦¢£¤ „§¤ ó
˜‚’¤ ¥ “œŽ¦ ’¥ œˆ§ ¦¤¡ ƒ¢ˆ§ ”¤Ž œ¢ ’ œ¤ ¢‹ ’¥ ž¥ ž¤ ¢Ž ’ œ¥ Ÿ ¦ œ¤ –Žš ˆ“Ÿ ƒŽ Ÿ ’¥ ‹¤œ§ œŽ œ¦ þþ‚¤… Ú ”¤Ž ³ œ§¤¡ œ§¢ž¢ýýý
”¤Ž ¥ ³ œ§¤¡ œ§¢ž¤¡ ¤œ žŸ‰¦ „œ ‹¤¦ œ¢ ŠŸ¢“ ‹¤œ§„ Ž¦ „‚ ¤œ¤œ ‹¤¦ œ¥ ž¥ ’¥ žƒ… ¤ ¢Ž ‚¢ž þþ ³£¤ í ³£¤ ýý
”¤Ž œ Ž‹ŸŽ‡§¤ ¦¢ ˆ¦Ž¦ Ž¢“ ¦¢¤ ‡¤’¥ ‚‡§„¥ ¦¢£¥ ˆŽ™ Ÿ¤¡ „¤ž ‡£¥í ¤’ Ÿ˜ž¢Ÿ ¦¢ ¢¤ ¢¦ œˆ§ ‚§ ¤ ¦¥ ó
¤œ ¦š„¦ Ž ¤ ”‚‰ œ ¢›„ „§ ”¤Ž ³ Ÿ¤¡ œ§¤ž Ž¦ „§”‚Ž ‰’¤ ¥ ³œŽ’¥ ¢‹Ÿ¤¡ …§ž¤ ¢Ž ƒ¤Ž œŽœ¥ ‚¢ž¥ þþ„Ÿ¦Ž¤ œ¢ ŸŽ œŽ‚§‹¤¡ îýý
”¤Ž ¥ Ÿ ¦ ‚ œŽ œ¦ þþ ¦¤¡ ¢¦ ¦¤¡ ‡£¥ ¤ ýý
˜‚’¤ ‚¢ž¤ þþœ¤¢¡‚¤… ÚŸ‡§¥ „¢ „¢ ¥ œ˜‚¦ “Ž¤š ¦ ‡ ¥ ‹¤ Ÿ¤Ž¥ ‰‡ œ †¢‚ œ¢ ‹¥ îýý
”‚Ž ‰’¤ ¥ Ÿ’œŽ œŽ œ¦ þþ„Ÿ¦¤¡ ’ ’¥ œ¦¤¡ ¤‹¦ †¢‚ ¦¢¤ ’ ‰‡ œ Ÿ ‰‡ œ‚Ž ¦¥ ó ýý
Related articles
- Wasif Ali Wasif Poetry & Urdu Quotes (urdupoetry.wordpress.com)